وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ، تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا ، بولا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تونے مٹی سے بنایا ؟ (ف ٢) ۔
ابلیس کی قدیمی دشمنی ابلیس کی قدیمی عداوت سے انسان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کا کھلا دشمن تھا ، اس کی اولاد برابر اسی طرح تمہاری دشمن ہے ، سجدے کا حکم سن کر سب فرشتوں نے تو سر جھکا دیا لیکن اس نے تکبر جتایا ، اسے حقیر سمجھا اور صاف انکار کر دیا کہ ناممکن ہے کہ میرا سر کسی مٹی سے بنے ہوئے کے سامنے جھکے ، «أَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِی مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِینٍ» ۱؎ (7-الأعراف:12) ’ میں اس سے کہیں افضل ہوں ، میں آگ ہوں یہ خاک ہے ۔ ‘ پھر اس کی ڈھٹائی دیکھیئے کہ اللہ جل و علی کے دربار میں گستاخانہ لہجے سے کہتا ہے کہ اچھا اسے اگر تو نے مجھ پر فضیلت دی تو کیا ہوا میں بھی اس کی اولاد کو برباد کر کے ہی چھوڑوں گا ، سب کو اپنا تابعدار بنا لوں گا اور بہکا دوں گا ، بس تھوڑے سے میرے پھندے سے چھوٹ جائیں گے ، باقی سب کو غارت کر دوں گا ۔