الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
وہ جن کی روح فرشتے اس وقت قبض کرتے تھے کہ جب وہ اپنی جانوں پر ستم کر رہے تھے پھر وہ اطاعت کا پیغام ڈالیں گے کہ ہم کچھ برائی نہ کرتے تھے ، کیوں نہیں ؟ اللہ جانتا ہے ، جو تم کرتے تھے (ف ٢) ۔
مشرکین کی جان کنی کا عالم مشرکین کی جان کنی کے وقت کا حال بیان ہو رہا ہے کہ ’ جب فرشتے ان کی جان لینے کے لیے آتے ہیں ، تو یہ اس وقت سننے عمل کرنے اور مان لینے کا اقرار کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی اپنے کرتوت چھپاتے ہوئے اپنی بے گناہی بیان کرتے ہیں ‘ ۔ «وَ اللہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:23) ’ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کر اپنا مشرک نہ ہونا بیان کریں گے ‘ ۔ «یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللہُ جَمِیعًا فَیَحْلِفُونَ لَہُ کَمَا یَحْلِفُونَ لَکُمْ» ۱؎ (58-المجادلہ:18) ’ جس طرح دنیا میں اپنی بے گناہی پر لوگوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھاتے تھے ۔ انہیں جواب ملے گا کہ جھوٹے ہو ، بد اعمالیاں جی کھول کر کہ چکے ہو ، اللہ غافل نہیں جو باتوں میں آ جائے ہر ایک عمل اس پر روشن ہے ۔ اب اپنے کرتوتوں کا خمیا زہ بھگتو اور جہنم کے دروازوں سے جا کر ہمیشہ اسی بری جگہ میں پڑے رہو ‘ ۔ مقام برا ، مکان برا ، ذلت اور رسوائی والا ، اللہ کی آیتوں سے تکبر کرنے کا اور اس کے رسولوں کی اتباع سے جی چرانے کا یہی بدلہ ہے ۔ مرتے ہی ان کی روحیں جہنم رسید ہو جائیں اور جسموں پر قبروں میں جہنم کی گرمی اور اس کی لپک آنے لگی ۔ «لَا یُقْضَیٰ عَلَیْہِمْ فَیَمُوتُوا وَلَا یُخَفَّفُ عَنْہُم مِّنْ عَذَابِہَا» (35-فاطر:36) ’ قیامت کے دن روحیں جسموں سے مل کر نار جہنم میں گئیں اب نہ موت نہ تخفیف ‘ ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت «النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا» ۱؎ (40-غافر:46) ’ یہ دوزخ کی آگ کے سامنے ہر صبح شام لائے جاتے ہیں ۔ قیامت کے قائم ہوتے ہی اے آل فرعون تم سخت تر عذاب میں چلے جاؤ ‘ ۔