وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ
اور جو ان کے دلوں میں خفگی ہی ہم اسے نکال ڈالیں گے بھائی ہو کر آمنے سامنے تختوں پرہوں گے ،
. حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی سینے بے کینہ ہو جائیں گے ۔ چنانچہ مرفوع حدیث میں بھی ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { مومن جہنم سے نجات پا کر جنت دوزخ کے درمیان کے پل پر روک لیے جائیں گے جو ناچاقیاں اور ظلم آپس میں تھے ، ان کا ادلہ بدلہ ہو جائے گا اور پاک دل صاف سینہ ہو کر جنت میں جائیں گے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6535) اشتر نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آنے کی اجازت مانگی ، اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے بیٹھے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے کچھ دیر کے بعد اسے اندر بلایا اس نے کہا کہ شاید ان کی وجہ سے مجھے آپ رضی اللہ عنہ نے دیر سے اجازت دی ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سچ ہے ۔ کہا پھر تو اگر آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہوں تو بھی آپ مجھے اسی طرح روک دیں گے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” بیشک مجھے تو اللہ سے امید ہے کہ میں اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہوں گے ، جن کی شان میں یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ خفگی تھی ہم نے دور کر دی ، بھائی بھائی ہو کر آمنے سامنے تخت شاہی پر جلوہ فرما ہیں “ ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عمران بن طلحہ اصحاب جمل سے فارغ ہو کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں مرحبا کہا اور فرمایا کہ ” میں امید رکھتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان میں سے ہیں جن کے دلوں کے غصے اللہ دور کر کے بھائی بھائی بنا کر جنت کے تختوں پر آمنے سامنے بٹھائے گا “ ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر فرش کے کونے پر بیٹھے ہوئے دو شخصوں نے کہا ، اللہ کا عہد اس سے بہت بڑھا ہوا ہے کہ جنہیں آپ قتل کریں ان کے بھائی بن جائیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے غصے سے فرمایا ” اگر اس آیت سے مراد میرے اور طلحہ جیسے لوگ نہیں تو اور کون ہوں گے ؟ “ اور روایت میں ہے کہ قبیلہ ہمدان کے ایک شخص نے یہ کہا تھا اور علی رضی اللہ عنہ نے اس دھمکی اور بلند آواز سے یہ جواب دیا تھا کہ محل ہل گیا ۔ اور روایت میں ہے کہ کہنے والے کا نام حارث اعور تھا اور اس کی اس بات پر آپ رضی اللہ عنہ نے غصے ہو کر جو چیز آپ رضی اللہ عنہ کی ہاتھ میں تھی وہ اس کے سر پر مار کر یہ فرمایا تھا ۔ این جرموز جو زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا جب دربار علی رضی اللہ عنہ میں آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے بڑی دیر بعد اسے داخلے کی اجازت دی ، اس نے آ کر زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو بلوائی کہہ کر برائی سے یاد کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تیرے منہ میں مٹی ۔ میں اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہ تو ان شاءاللہ ان لوگوں میں ہیں جن کی بابت اللہ کا یہ فرمان ہے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ قسم کہا کر فرماتے ہیں کہ ” ہم بدریوں کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے “ ۔ کثیر کہتے ہیں ” میں ابو جعفر محمد بن علی کے پاس گیا اور کہا کہ میرے دوست آپ کے دوست ہیں اور مجھ سے مصالحت رکھنے والے آپ سے مصالحت رکھے والے ہیں ، میرے دشمن آپ کے دشمن ہیں اور مجھ سے لڑائی رکھنے والے آپ سے لڑائی رکھنے والے ہیں ۔ واللہ میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم سے بری ہوں “ ۔ اس وقت ابو جعفر نے فرمایا ” اگر میں ایسا کروں تو یقیناً مجھ سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں ۔ ناممکن کہ میں اس وقت ہدایت پر قائم رہ سکوں ۔ ان دونوں بزرگوں یعنی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے تو اے کثیر محبت رکھ ، اگر اس میں تجھے گناہ ہو تو میری گردن پر “ ۔ پھر آپ نے اسی آیت کے آخری حصہ کی تلاوت فرمائی ، اور فرمایا کہ ” یہ ان دس شخصوں کے بارے میں ہے ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، عبدالرحمٰن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص ، سعید بن زید اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین ، یہ آمنے سامنے ہوں گے تاکہ کسی کی طرف کسی کی پیٹھ نہ رہے “ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک مجمع میں آ کر اسے تلاوت فرما کر فرمایا { یہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے ۔ وہاں انہیں کوئی مشقت ، تکلیف اور ایذاء نہ ہو گی } } ۔ ۱؎ (ضعیف) بخاری و مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت کے سونے کے محل کی خوشخبری سنا دوں جس میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و مصیبت ۔ یہ جنتی جنت سے کبھی نکالے نہ جائیں گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3820) حدیث میں ہے { ان سے فرمایا جائے گا کہ اے جنتیو تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ پڑو گے اور ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مروگے اور ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ بنو گے اور ہمیشہ یہیں رہو گے کبھی نکالے نہ جاؤ گے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2837) اور آیت میں ہے «خَالِدِینَ فِیہَا لَا یَبْغُونَ عَنْہَا حِوَلًا» ۱؎ (18-الکہف:108) ’ وہ تبدیلی مکان کی خواہش ہی نہ کریں گے نہ ان کی جگہ ان سے چھنے گی ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَیْرُ الرَّاحِمِینَ» ۱؎ (23-المؤمنون:118) ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بندوں سے کہہ دیجئیے کہ میں «أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ» ہوں ۔ اور میرے عذاب بھی نہایت سخت ہیں ‘ ۔ اسی جیسی آیت اور بھی گزر چکی ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ ’ مومن کو امید کے ساتھ ڈر بھی رکھنا چاہیئے ‘ ۔ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس آتے ہیں اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر فرماتے ہیں { جنت دوزخ کی یاد کرو } ، اس وقت یہ آیتیں اتریں } ۔ ۱؎ (مجمع الزوائد:11107:ضعیف) یہ مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو شیبہ کے دروازے سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آ کر کہتے ہیں { میں تو تمہیں ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہوں } یہ کہہ کر واپس مڑ گئے اور حطیم کے پاس سے ہی الٹے پاؤں پھرے ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ { ابھی میں جا ہی رہا تھا ، جو جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ ” جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ ’ تو میرے بندوں کو نامید کر رہا ہے ؟ انہیں مرے غفور و رحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے المناک ہونے کی خبر دیدے ‘ } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21214:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بندے اللہ تعالیٰ کی معافی کو معلوم کرلیں تو حرام سے بچنا چھوڑ دیں اور اگر اللہ کے عذاب کو معلوم کر لیں تو اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21213:مرسل)