سورة ابراھیم - آیت 37

رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے ہمارے رب میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس ایسے میدان میں بسایا کہ جہاں کھیتی نہیں ، اے ہمارے رب یہ میں نے اس لیا کہ وہ نماز کو قائم رکھیں ، تو ایسا کہ کہ لوگوں میں سے بعض کے دل ان کی طرف مائل ہوں ، اور انہیں میوں سے روزی دے ، شاید وہ شکر کریں

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

دوسری دعا یہ دوسری دعا ہے پہلی دعا اس شہر کے آباد ہونے سے پہلے جب آپ اسماعیل علیہ السلام کو مع ان کی والدہ صاحبہ کے یہاں چھوڑ کرگئے تھے ۔ تب کی تھی اور یہ دعا اس شہر کے آباد ہو جانے کے بعد کی اسی لیے یہاں «بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ» کا لفظ لائے اور نماز کے قائم کرنے کا بھی ذکر فرمایا ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” یہ متعلق ہے لفظ المحرم ساتھ یعنی اسے باحرمت اس لیے بنایا ہے کہ یہاں والے بااطمینان یہاں نمازیں ادا کر سکیں “ ۔ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے “ ، اگر سب لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکانے کی دعا ہوتی تو فارس و روم یہود و نصاری غرض تمام دنیا کے لوگ یہاں الٹ پڑتے ۔ آپ علیہ السلام نے صرف مسلمانوں کے لیے یہ دعا کی ۔ اور دعا کرتے ہیں کہ ” انہیں پھل بھی عنایت فرما “ ۔ یہ زمین زراعت کے قابل بھی نہیں اور دعا ہو رہی ہے پھلوں کی زوزی کی اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی جیسے ارشاد ہے «اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّہُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یٰجْــبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ» (28-القصص:57) یعنی ’ کیا ہم نے انہیں حرمت و امن والی ایسی جگہ عنایت نہیں فرمائی ؟ جہاں ہر چیز کے پھل ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں جو خاص ہمارے پاس کی روزی ہے ‘ ۔ پس یہ بھی اللہ کا خاص لطف و کرم عنایت و رحم ہے کہ شہر کی پیداوار کچھ بھی نہیں اور پھل ہر قسم کے وہاں موجود ، چاروں طرف سے وہاں چلے آئیں ۔ یہ ہے ابراہیم خلیل الرحمن صلوات اللہ وسلامہ علیہ کی دعا کی قبولیت ۔