وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو خدا نے نازل کیا ہے اس کے تابع ہوجاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ جن باتوں پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے انہیں پر چلیں گے بھلا کیا اس حالت میں بھی کہ ان کے باپ دادے نہ کچھ عقل رکھتے ہوں اور نہ ہدایت پر ہوں (ف ٢)
گمراہی اور جہالت کیا ہے؟ یعنی ان کافروں اور مشرکوں سے جب کہا جاتا ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کرو اور اپنی ضلالت وجہالت کو چھوڑ دو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے بڑوں کی راہ لگے ہوئے ہیں جن چیزوں کی وہ پوجا پاٹ کرتے تھے ہم بھی کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جس کے جواب میں قرآن کہتا ہے کہ وہ تو فہم و ہدایت سے غافل تھے ۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری ہے ۔ پھر ان کی مثال دی کہ جس طرح چرنے چگنے والے جانور اپنے چرواہے کی کوئی بات صحیح طور سے سمجھ نہیں سکتے صرف آواز کانوں میں پڑتی ہے اور کلام کی بھلائی برائی سے بے خبر رہتے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی ہیں ۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جن جن کو یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں اور ان سے اپنی حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہیں وہ نہ سنتے ہیں نہ جانتے ہیں نہ ان میں زندگی ہے نہ انہیں کچھ احساس ہے ۔ کافروں کی یہ جماعت حق کی باتوں کے سننے سے بہری ہے حق کہنے سے بے زبان ہے حق کے راہ چلنے سے اندھی ہے عقل وفہم سے دور ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت «وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا صُمٌّ وَبُکْمٌ فِی الظٰلُمَاتِ» ( 6-الأنعام : 39 ) یعنی ہماری باتوں کو جھٹلانے والے بہرے ، گونگے اور اندھیرے میں ہیں جسے اللہ چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے سیدھی راہ لگا دے ۔