سورة الرعد - آیت 3

وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑوں اور نہروں کو رکھا ۔ اور ہر میوے میں دوہرے جوڑے بنائے ، رات کو دن سے ڈھانپتا ہے ۔ دھیان کرنے والو کے اس میں بہت نشانیاں ہیں

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

عالم سفلی کے انواع و اقسام اوپر کی آیت میں عالم علوی کا بیان تھا ، یہاں علم سفلی کا ذکر ہو رہا ہے ، زمین کو طول عرض میں پھیلا کر اللہ ہی نے بچھایا ہے ۔ اس میں مضبوط پہاڑ بھی اسی کے گاڑے ہوئے ہیں ، اس میں دریاؤں اور چشموں کو بھی اسی نے جاری کیا ہے ۔ تاکہ مختلف شکل و صورت ، مختلف رنگ ، مختلف ذائقوں کے پھل پھول کے درخت اس سے سیراب ہوں ۔ جوڑا جوڑا میوے اس نے پیدا کئے ، کھٹے میٹھے وغیرہ ۔ رات دن ایک دوسرے کے پے در پے برابر آتے جاتے رہتے ہیں ، ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے پس مکان سکان اور زمان سب میں تصرف اسی قادر مطلق کا ہے ۔ اللہ کی ان نشانیوں ، حکمتوں ، اور دلائل کو جو غور سے دیکھے وہ ہدایت یافتہ ہو سکتا ہے ۔ زمین کے ٹکڑے ملے جلے ہوئے ہیں ، پھر قدرت کو دیکھے کہ ایک ٹکڑے سے تو پیداوار ہو اور دوسرے سے کچھ نہ ہو ۔ ایک کی مٹی سرخ ، دوسرے کی سفید ، زرد ، وہ سیاہ ، یہ پتھریلی ، وہ نرم ، یہ میٹھی ، وہ شور ۔ ایک ریتلی ، ایک صاف ، غرض یہ بھی خالق کی قدرت کی نشانی ہے اور بتاتی ہے کہ فاعل ، خود مختار ، مالک الملک ، لا شریک ایک وہی اللہ خالق کل ہے ۔ نہ اس کے سوا کوئی معبود ، نہ پالنے والا ۔ «وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ» کو اگر «جَنَّاتٌ» پر عطف ڈالیں تو پیش سے مرفوع پڑھنا چاہیئے اور «أَعْنَابٍ» پر عطف ڈالیں تو زیر سے مضاف الیہ مان کر مجرور پڑھنا چاہیئے ۔ ائمہ کی جماعت کی دونوں قرأتیں ہیں ۔ «صِنْوَانٍ» کہتے ہیں ایک درخت جو کئی تنوں اور شاخوں والا ہو جیسے انار اور انجیر اور بعض کھجوریاں ۔ «وَغَیْرُ صِنْوَانٍ» جو اس طرح نہ ہو ایک ہی تنا ہو جیسے اور درخت ہوتے ہیں ۔ اسی سے انسان کے چچا کو «صُنوُالْاَبْ» کہتے ہیں ۔ حدیث میں بھی یہ آیا ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : { کیا تمہیں معلوم نہیں کہ انسان کا چچا مثل باپ کے ہوتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:983) سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ایک جڑ یعنی ایک تنے میں کئی ایک شاخدار درخت کھجور ہوتے ہیں اور ایک تنے پر ایک ہی ہوتا ہے یہی صنوان اور غیر صنوان ہے “ ۔ یہی قول اور بزرگوں کا بھی ہے ۔ سب کے لیے پانی ایک ہی ہے یعنی بارش کا لیکن ہر مزے اور پھل میں کمی بیشی میں بے انتہا فرق ہے ، کوئی میٹھا ہے ، کوئی کھٹا ہے ۔ حدیث میں بھی یہ تفسیر ہے ملاحظہ ہو ترمذی شریف ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3118،قال الشیخ الألبانی:حسن) الغرض قسموں اور جنسوں کا اختلاف ، شکل صورت کا اختلاف ، رنگ کا اختلاف ، بو کا اختلاف ، مزے کا اختلاف ، پتوں کا اختلاف ، تروتازگی کا اختلاف ، ایک بہت ہی میٹھا ، ایک سخت کڑوا ، ایک نہایت خوش ذائقہ ، ایک بے حد بد مزا ، رنگ کسی کا زرد ، کسی کا سرخ ، کسی کا سفید ، کسی کا سیاہ ۔ اسی طرح تازگی اور پھل میں بھی اختلاف ، حالانکہ غذا کے اعتبار سے سب یکساں ہیں ۔ یہ قدرت کی نیرنگیاں ایک ہوشیار شخص کے لیے عبرت ہیں ۔ اور فاعل مختار اللہ کی قدرت کا بڑا زبردست پتہ دیتی ہیں کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے ۔ عقل مندوں کے لیے یہ آیتیں اور یہ نشانیاں کافی وافی ہیں ۔