سورة یوسف - آیت 99

فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر جب وہ یوسف (علیہ السلام) کے پاس آئے تو اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا انشاء اللہ مصر میں امن سے داخل ہو ۔ (ف ١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

. بھائیوں پر یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو ظاہر کر کے فرمایا تھا کہ ابا جی کو اور گھر کے سب لوگوں کو یہیں لے آؤ ۔ بھائیوں نے یہی کیا ، اس بزرگ قافلے نے کنعان سے کوچ کیا جب مصر کے قریب پہنچے تو نبی اللہ یوسف علیہ السلام بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لیے چلے اور حکم شاہی سے شہر کے تمام امیر امرا اور ارکان دولت بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ یہ مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لیے شہر سے باہر آیا تھا ۔ اس کے بعد جو جگہ دینے وغیرہ کا ذکر ہے اس کی بابت بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس کی عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی آپ نے ان سے فرمایا تم مصر میں چلو ، ان شاءاللہ پر امن اور بے خطر رہو گے اب شہر میں داخلے کے بعد آپ نے اپنے والدین کو اپنے پاس جگہ دی اور انہیں اونچے تخت پر بٹھایا ۔ لیکن امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں سدی رحمہ اللہ کا قول بالکل ٹھیک ہے جب پہلے ہی ملاقات ہوئی تو آپ نے انہیں اپنے پاس کر لیا اور جب شہر کا دروازہ آیا تو فرمایا اب اطمینان کے ساتھ یہاں چلئے ۔ لیکن اس میں بھی ایک بات رہ گئی ہے ۔ «آوَیٰ» اصل میں منزل میں جگہ دینے کو کہتے ہیں جیسے «اوؤ الیہ احاہ» میں ہے ۔ اور حدیث میں بھی ہے «من اوی محدثا» (صحیح بخاری:3179) پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کا مطلب یہ بیان نہ کریں کہ ان کے آ جانے کے بعد انہیں جگہ دینے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا کہ تم امن کے ساتھ مصر میں داخل ہو یعنی یہاں قحط وغیرہ کی مصیبتوں سے محفوظ ہو کر با آرام رہو سہو ، مشہور ہے کہ اور جو قحط سالی کے سال باقی تھے ۔ ، وہ یعقوب علیہ السلام کی تشریف آوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دور کر دئے ۔ جیسے کہ اہل مکہ کی قحط سالی سے تنگ آ کر ابوسفیان نے آپ سے شکایت کی اور بہت روئے پیٹے اور سفارش چاہی ۔(صحیح بخاری:2798) عبدالرحمٰن کہتے ہیں یوسف علیہ السلام کی والدہ کا تو پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا ۔ اس وقت آپ کے والد صاحب کے ہمراہ آپ کی خالہ صاحبہ آئی تھیں ۔ لیکن امام ابن جریر اور امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آپ کی والدہ خود ہی زندہ موجود تھیں ، ان کی موت پر کوئی صحیح دلیل نہیں اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ اس بات کو چاہتے ہیں کہ آپ کی والدہ ماجدہ زندہ موجود تھیں ، یہی بات ٹھیک بھی ہے ۔ آپ علیہ السلام نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ تخت شاہی پر بٹھا لیا ۔ اس وقت ماں باپ بھی اور گیارہ بھائی کل کے کل آپ کے سامنے سجدے میں گر پڑے ۔ آپ نے فرمایا «اذْ قَالَ یُوسُفُ لِأَبِیہِ یَا أَبَتِ إِنِّی رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَیْتُہُمْ لِی سَاجِدِینَ» ( 12-یوسف : 4 ) ابا جی لیجئے میرے خواب کی تعبیر ظاہر ہو گئی یہ ہیں گیارہ ستارے اور یہ ہیں سورج چاند جو میرے سامنے سجدے میں ہیں ۔ ان کی شرع میں یہ جائز تھی کہ بڑوں کو سلام کے ساتھ سجدہ کرتے تھے بلکہ آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک یہ بات جائز ہی رہی لیکن اس ملت محمدیہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کسی اور کے لیے سوائے اپنی ذات پاک کے سجدے کو مطلقاً حرام کر دیا ۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے اپنے لیے ہی مخصوص کر لیا ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کے قول کا ماحصل مضمون یہی ہے حدیث شریف میں ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہما ملک شام گئے ، وہاں انہوں نے دیکھا کہ شامی لوگ اپنے بڑوں کو سجدے کرتے ہیں یہ جب لوٹے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ، معاذ یہ کیا بات ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے اہل شام کو دیکھا کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں کسی کے لیے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے ۔ بہ سبب اس کے بہت بڑے حق کے جو اس پر ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:1853 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے کہ سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام کے ابتدائی زمانے میں راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپ کے سامنے سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سلمان مجھے سجدہ نہ کرو ۔ سجدہ اس اللہ کو کرو جو ہمیشہ کی زندگی والا ہے جو کبھی نہ مرے گا ۔ (جمع الجوامع للسیوطی:877) الغرض چونکہ اس شریعت میں جائز تھا اس لیے انہوں نے سجدہ کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا لیجئے ابا جی میرے خواب کا ظہور ہو گیا ۔ میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا ۔ اس کا انجام ظاہر ہو گیا ۔ چنانچہ اور آیت میں قیامت کے دن کے لیے بھی یہی لفظ بولا گیا ہے «ہَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ تَأْوِیلَہُ یَوْمَ یَأْتِی تَأْوِیلُہُ» ( 7-الأعراف : 53 ) پس یہ بھی اللہ کا مجھ پر ایک احسان عظیم ہے کہ اس نے میرے خواب کو سچا کر دکھایا اور جو میں نے سوتے سوتے دیکھا تھا ، الحمد للہ مجھے جاگنے میں بھی اس نے دکھا دیا ۔ اور احسان اس کا یہ بھی ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نجات دی اور تم سب کو صحرا سے یہاں لا کر مجھ سے ملا دیا ۔ آپ چونکہ جانوروں کے پالنے والے تھے ، اس لیے عموماً بادیہ میں ہی قیام رہتا تھا ، فلسطین بھی شام کے جنگلوں میں ہے اکثر اوقات پڑاؤ رہا کرتا تھا ۔ کہتے ہیں کہ یہ اولاج میں حسمی کے نیچے رہا کرتے تھے اور مویشی پالتے تھے ، اونٹ بکریاں وغیرہ ساتھ رہتی تھیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:307/7) پھر فرماتے ہیں اس کے بعد کہ شیطان نے ہم میں پھوٹ ڈلوا دی تھی ، اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ کرتا ہے ، اس کے ویسے ہی اسباب مہیا کر دیتا ہے اور اسے آسان اور سہل کر دیتا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے اپنے افعال اقوال قضاء و قدر مختار و مراد میں وہ باحکمت ہے ۔ سلیمان کا قول ہے کہ خواب کے دیکھنے اور اس کی تاویل کے ظاہر ہونے میں چالیس سال کا وقفہ تھا ۔ عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں خواب کی تعبیر کے واقع ہونے میں اس سے زیادہ زمانہ لگتا بھی نہیں یہ آخری مدت ہے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:308/7:) حضرت حسن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ باپ بیٹے اسی برس کے بعد ملے تم خیال تو کرو کہ زمین پر یعقوب علیہ السلام سے زیادہ اللہ کا کوئی محبوب بندہ نہ تھا ۔ پھر بھی اتنی مدت انہیں فراق یوسف علیہ السلام میں گزری ، ہر وقت آنکھوں سے آنسو جاری رہتے اور دل میں غم کی موجیں اٹھتیں اور روایت میں ہے کہ یہ مدت تراسی سال کی تھی ۔ فرماتے ہیں جب یوسف علیہ السلام کنویں میں ڈالے گئے اس وقت آپ کی عمر سترہ سال کی تھی ۔ اسی برس تک آپ علیہ السلام باپ کی نظروں سے اوجھل رہے ۔ پھر ملاقات کے بعد تیئس برس زندہ رہے اور ایک سو بیس برس کی عمر میں انتقال کیا ۔ بقول حضرت قتادہ رحمہ اللہ ترپن برس کے بعد باپ بیٹا ملے ۔ ایک قول ہے کہ اٹھارہ سال ایک دوسرے سے دور رہے اور ایک قول ہے کہ چالیس سال کی جدائی رہی اور پھر مصر میں باپ سے ملنے کے بعد سترہ سال زندہ رہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنو اسرائیل جب مصر پہنچے ہیں ان کی تعداد صرف تریسٹھ کی تھی اور جب یہاں سے نکلے ہیں اس وقت ان کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار کی تھی ۔ مسروق کہتے ہیں آنے کے وقت یہ مع مرد و عورت تین سو نوے تھے ، عبداللہ بن شداد کا قول ہے کہ جب یہ لوگ آئے کل چھیاسی تھے یعنی مرد عورت بوڑھے بچے سب ملا کر اور جب نکلے ہیں اس وقت ان کی گنتی چھ لاکھ سے اوپر اوپر تھی ۔