فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
پھر جب اسے لے گئے اور اس امر پر اتفاق کرلیا کہ اسے تاریک کنوئیں میں ڈال دیں ، اور ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو وحی بھیجی ، کہ تو ان کے اس کام سے (آئندہ کو) نہیں خبردار کرے گا ، اور وہ نہ جانیں گے (ف ٢) ۔
بھائی اپنے منصوبہ میں کامیاب ہو گئے سمجھا بجھا کر بھائیوں نے باپ کو راضی کر ہی لیا ۔ اور یوسف علیہ السلام کو لے کر چلے جنگل میں جا کر سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یوسف علیہ السلام کو کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں ڈال دیں ۔ حالانکہ باپ سے یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ اس کا جی بہلے گا ، ہم اسے عزت کے ساتھ لے جائیں گے ۔ ہر طرح خوش رکھیں گے ۔ اس کا جی بہل جائے گا اور یہ راضی خوشی رہے گا ۔ یہاں آتے ہی غداری شروع کر دی اور لطف یہ ہے کہ سب نے ایک ساتھ دل سخت کر لیا ۔ باپ نے ان کی باتوں میں آ کر اپنے لخت جگر کو ان کے سپرد کر دیا ۔ جاتے ہوئے سینے سے لگا کر پیار پچکار کر دعائیں دے کر رخصت کیا ۔ باپ کی آنکھوں سے ہٹتے ہی ان سب نے بھائی کو ایذائیں دینی شروع کر دیں برا بھلا کہنے لگے اور چانٹا چٹول سے بھی باز نہ رہے ۔ مارتے پیٹتے برا بھلا کہتے ، اس کنویں کے پاس پہنچے اور ہاتھ پاؤں رسی سے جکڑ کر کنویں میں گرانا چاہا ۔ آپ ایک ایک کے دامن سے چمٹتے ہیں اور ایک ایک سے رحم کی درخواست کرتے ہیں لیکن ہر ایک جھڑک دیتا ہے اور دھکا دے کر مار پیٹ کر ہٹا دیتا ہے مایوس ہو گئے سب نے مل کر مضبوط باندھا اور کنویں میں لٹکا دیا آپ علیہ السلام نے کنویں کا کنارا ہاتھ سے تھام لیا لیکن بھائیوں نے انگلیوں پر مار مار کر اسے بھی ہاتھ سے چھڑا لیا ۔ آدھی دور آپ پہنچے ہوں گے کہ انہوں نے رسی کاٹ دی ۔ آپ علیہ السلام تہ میں جا گرے ، کنویں کے درمیان ایک پتھر تھا جس پر آ کر کھڑے ہو گئے ۔ عین اس مصیبت کے وقت عین اس سختی اور تنگی کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانب وحی کی کہ آپ کا دل مطمئن ہو جائے آپ علیہ السلام صبر و برداشت سے کام لیں اور انجام کا آپ کو علم ہو جائے ۔ وحی میں فرمایا گیا کہ غمگین نہ ہو یہ نہ سمجھ کہ یہ مصیبت دور نہ ہو گی ۔ سن اللہ تعالیٰ تجھے اس سختی کے بعد آسانی دے گا ۔ اس تکلیف کے بعد راحت ملے گی ۔ ان بھائیوں پر اللہ تجھے غلبہ دے گا یہ گو تجھے پست کرنا چاہتے ہیں لیکن اللہ کی چاہت ہے کہ وہ تجھے بلند کرے ۔ یہ جو کچھ آج تیرے ساتھ کر رہے ہیں وقت آئے گا کہ تو انہیں ان کے اس کرتوت کو یاد دلائے گا اور یہ ندامت سے سر جھکائے ہوئے ہوں گے اپنے قصور سن رہے ہوں گے ۔ اور انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ تو وہ ہے ۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب برادران یوسف ، یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ علیہ السلام نے تو انہیں پہچان لیا لیکن یہ نہ پہچان سکے ۔ اس وقت آپ علیہ السلام نے ایک پیالہ منگوایا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر اسے انگلی سے ٹھونکا ۔ آواز نکلی ہی تھی اس وقت آپ نے فرمایا لو یہ جام تو کچھ کہہ رہا ہے اور تمہارے متعلق ہی کچھ خبر دے رہا ہے ۔ یہ کہہ رہا ہے تمھارا ایک یوسف نامی سوتیلا بھائی تھا ۔ تم اسے باپ کے پاس سے لے گئے اور اسے کنویں میں پھینک دیا ۔ پھر اسے انگلی ماری اور ذرا سی دیر کان لگا کر فرمایا لو یہ کہہ رہا ہے کہ پھر تم اس کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر باپ کے پاس گئے اور وہاں جا کر ان سے کہہ دیا کہ تیرے لڑکے کو بھیڑیئے نے کھا لیا ۔ اب تو یہ حیران ہو گئے آپس میں کہنے لگے ہائے برا ہوا بھانڈا پھوٹ گیا اس جام نے تو تمام سچی سچی باتیں بادشاہ سے کہہ دیں ۔ پس یہی ہے جو آپ کو کنویں میں وحی ہوئی کہ ان کے اس کے کرتوت کو تو انہیں ان کے بے شعوری میں جتائے گا ۔