وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً ۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ
اور اگر تیرا رب چاہتا ، تو سب لوگوں کو ایک راہ پر کردیتا ، اور وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے (ف ١) ۔
جس پر اللہ تعالٰی کا کرم ہو اللہ کی قدر کسی کام سے عاجز نہیں ۔ «وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ لَآمَنَ مَن فِی الْأَرْضِ کُلٰہُمْ جَمِیعًا» ۱؎ (10-یونس:99) ’ وہ چاہے تو سب کو ہی اسلام یا کفر پر جمع کر دے ‘ لیکن اس کی حکمت ہے جو انسانی رائے ان کے دین و مذاہب جدا جدا برابر جاری و ساری ہیں ۔ طریقے مختلف ، مالی حالات جداگانہ ایک ایک کے ماتحت یہاں مراد دین و مذہب کا اختلاف ہے ۔ جن پر اللہ کا رحم ہو جائے وہ رسولوں کی تابعداری رب تعالیٰ کی حکم برداری میں برابر لگے رہتے ہیں ۔ اب وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع ہیں ۔ اور یہی نجات پانے والے ہیں ۔ چنانچہ مسند و سنن میں حدیث ہے جس کی ہر سند دوسری سند کو تقویت پہنچا رہی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” یہودیوں کے اکہتر گروہ ہوئے ۔ نصاریٰ بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے ، اس امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے ، سب جہنمی ہیں سوائے ایک جماعت کے “ ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا : ” یا رسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ” وہ جو اس پر ہوں جس پر میں ہو اور میرے اصحاب “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2641 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) بقول عطا رحمہ اللہ «مُخْتَلِفِینَ» سے مراد یہودی ، نصرانی ، مجوسی ہیں اور اللہ کے رحم والی جماعت سے مراد یک طرفہ دین اسلام کے مطیع لوگ ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ جماعت ہے گو ان کے وطن اور بدن جدا ہوں اور اہل معصیت فرقت و اختلاف والے ہیں گو ان کے وطن اور بدن ایک ہی جا جمع ہوں ۔ «فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ» ۱؎ (11-ھود:105) قدرتی طور پر ان کی پیدائش ہی اسی لیے ہے شقی و سعید کی ازلی تقسیم ہے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ رحمت حاصل کرنے والی یہ جماعت بالخصوص اسی لیے ہے ۔ طاؤس رحمہ اللہ کے پاس دو شخص اپنا جھگڑا لے کر آئے اور آپس کے اختلاف میں بہت بڑھ گئے تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ” تم نے جھگڑا اور اختلاف کیا “ اس پر ایک شخص نے کہا ” اسی لیے ہم پیدا کئے گئے ہیں “ ۔ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ، ” غلط ہے “ اس نے اپنے ثبوت میں اسی آیت کی تلاوت کی تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” اس لیے نہیں پیدا کیا کہ آپس میں اختلاف کریں ، بلکہ پیدائش تو جمع کے لیے اور رحمت حاصل کرنے کے لیے ہوئی ہے “ ۔ جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” رحمت کے لیے پیدا کیا ہے نہ کہ عذاب کے لیے ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ» ۱؎ (51-الذاریات:56) ’ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے ‘ ۔ تیسرا قول ہے کہ ” رحمت اور اختلاف کے لیے پیدا کیا ہے “ ۔ چنانچہ مالک رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” ایک فرقہ جنتی اور ایک جہنمی ۔ انہیں رحمت حاصل کرنے اور انہیں اختلاف میں مصروف رہنے کے لیے پیدا کیا ہے تیرے رب کا یہ فیصلہ ناطق ہے کہ اس کی مخلوق میں ان دونوں اقسام کے لوگ ہوں گے اور ان دونوں سے جنت دوزخ پر کئے جائیں گے ۔ اس کی کامل حکمتوں کو وہی جانتا ہے “ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جنت دوزخ دونوں میں آپس میں گفتگو ہوئی ۔ جنت نے کہا مجھ میں تو صرف ضعیف اور کمزور لوگ ہی داخل ہوتے ہیں اور جہنم نے کہا میں تکبر اور ظلم کرنے والوں کے ساتھ مخصوص کی گئی ہوں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ عزوجل نے جنت سے فرمایا ’ تو میری رحمت ہے ، جسے میں چاہوں اسے تجھ سے نواز دوں گا ‘ ۔ اور جہنم سے فرمایا ’ تو میرا عذاب ہے جس سے میں چاہوں تیرے عذاب کے ذریعہ اس سے انتقام لوں گا ۔ تم دونوں پر ہو جاؤ گی ‘ ۔ جنت میں تو برابر زیادتی رہے گی یہاں تک کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا اور اسے اس میں بسائے گا اور جہنم بھی برابر زیادتی طلب کرتی رہے گی یہاں تک کہ اس پر اللہ رب العزت اپنا قدم رکھ دے گا تب وہ کہے گی تیری عزت کی قسم اب بس ہے بس ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4849)