لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ۖ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
جو نیکی کرتے ہیں ، ان کے لئے بھلائی اور زیادتی ہے ، اور ان کے چہروں پر سیاہی اور ذلت نہ چھائے گی وہ بہشتی ہیں ، وہاں ہمیشہ رہیں گے (ف ١) ۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہاں جس نے نیک اعمال کئے اور با ایمان رہا وہاں اسے بھلائیاں اور نیک بدلے ملیں گے ۔ «ہَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ» ۱؎ (55-الرحمن:60) ’ احسان کا بدلہ احسان ہے ‘ ۔ ایک ایک نیکی بڑھا چڑھا کر زیادہ ملے گی ایک کے بدلے سات سات سو تک ۔ جنت حور قصور وغیرہ وغیرہ آنکھوں کی طرح طرح کی ٹھنڈک ، دل کی لذت اور ساتھ ہی اللہ عزوجل کے چہرے کی زیارت یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا لطف و رحم ہے ۔ بہت سے سلف خلف صحابہ وغیرہ سے مروی ہے کہ زیادہ سے مراد اللہ عزوجل کا دیدار ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا : { جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے اور اس وقت ایک منادی کرنے والا ندا کرے گا کہ اے جنتیو ! تم سے اللہ کا ایک وعدہ ہوا تھا ، اب وہ بھی پورا ہونے کو ہے ۔ یہ کہیں گے «اَلْحَمْدُ لِلہِ» ہمارے میزان بھاری ہوگئے ، ہمارے چہرے نورانی ہوگئے ، ہم جنت میں پہنچ گئے ، ہم جہنم سے دور ہوئے ، اب کیا چیز باقی ہے ؟ اس وقت حجاب ہٹ جائے گا اور یہ اپنے پاک پرودگار کا دیدار کریں گے ۔ واللہ کسی چیز میں انہیں وہ لذت و سرور نہ حاصل ہوا ہو گا جو دیدار الٰہی میں ہوگا } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:181) اور حدیث میں کہ { منادی کہے گا حسنیٰ سے مراد جنت تھی اور زیارت سے مراد دیدار الٰہی تھا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17633:سخت ضعیف) ایک حدیث میں یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مروی ہے ۔ میدان محشر میں ان کے چہروں پر سیاہی نہ ہوگی نہ ذلت ہوگی ۔ جیسے کہ کافروں کے چہروں پر یہ دونوں چیزیں ہوں گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17633:ضیعف) غرض ظاہر اور باطنی اہانت سے وہ دور ہوں گے ۔ چہرے پر نور دل راحتوں سے مسرور ۔ اللہ ہمیں بھی انہیں میں کرے آمین ۔