لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
تمہارے درمیان سے تمہارے پاس رسول آیا ، تمہارا دکھ اس پر شاق ہے وہ تم پر تمہارے نفع کا حریص ہے ، ایمانداروں پر شفیق مہربان ہے (ف ١) ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کا احسان عظیم ہیں مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنا احسان عظیم یاد دلا رہا ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے خود انہی میں سے ان کی ہی زبان میں اپنا رسول بھیجا ۔ سیدنا خلیل اللہ علیہ السلام نے یہی دعا کی تھی ۔ ۱؎ (2-البقرۃ:129) اسی کا بیان آیت «لَقَدْ مَنَّ اللہُ» ۱؎ (3-آل عمران:164) الخ میں ہے ۔ یہی سیدنا جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے دربار نجاشی میں اور یہی سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے دربار کسریٰ میں بیان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ہم میں سے ایک رسول بھیجا ۔ جس کا نسب ہمیں معلوم ، جس کی عادت سے ہم واقف ، جس کے آنے جانے کی ہمیں خبر ، جس کی صداقت و امانت کے ہم خود شاہد ہیں ۔ جاہلیت کی برائیوں میں سے کوئی برائی اللہ نے آپ کی ذات میں پیدا نہیں ہونے دی ۔ نسب نامہ بالکل کھرا تھا ۔ خود آپ کا فرمان ہے کہ سیدنا آدم سے لے کر مجھ تک بفضلہ کوئی برائی جاہلیت کی زناکاری وغیرہ نہیں پہنچی ، ۱؎ (طبرانی اوسط:3483:حسن) میں صحیح النسب ہوں ۔ پھر اتنے نرم دل کہ امت کی تکلیفوں سے خود کانپ اٹھیں ۔ آسان نرمی اور سادگی والا دین لے کر آئے ہیں ۔ ۱؎ (مسند احمد:116/6:حسن) جو بہت آسان ہے ، سہل ہے ، ۱؎ (صحیح بخاری:39) کامل ہے اور اعلیٰ اور عمدہ ہے ۔ وہ تمہاری ہدایت کے متمنی ہیں ، وہ دنیاوی ، اخروی نفع تمہیں پہنچانا چاہتے ہیں ۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں چھوڑا کہ جو پرند اڑ کر نکلتا اس کا علم بھی آپ ہمیں کر دیتے “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جنت سے قریب کرنے والی اور جہنم سے دور کرنے والی تمام چیزیں میں تم سے بیان کر چکا ہوں “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:153،162/5:صحیح) آپ کا فرمان ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے تم پر جو کچھ حرام کیا ہے وہ عنقریب تم پر ظاہر کر دینے والا ہے اور اس کی بازپرس قطعاً ہونے والی ہے ۔ جس طرح پتنگے اور پروانے آگ پر گرتے ہوں اس طرح تم بھی گر رہے ہو اور میں تمہاری کولیاں بھربھر کر تمہیں اس سے روک رہا ہوں “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:390،424/1:حسن) نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سوئے ہوئے ہیں جو دو فرشتے آتے ہیں ۔ ایک پاؤں کی طرف بیٹھتا ہے دوسرا سرہانے ۔ پھر پاؤں والا سرہانے والے سے کہتا ہے ۔ اس کی اور اس کی امت کی مثال بیان کرو اس نے فرمایا : ” یہ مثال سمجھو کہ ایک قوم سفر میں ہے ایک چٹیل میدان میں پہنچتی ہے جہاں ان کا سامان خوراک ختم ہو جاتا ہے اب نہ تو آگے بڑھنے کی قوت ، نہ پیچھے ہٹنے کی سکت ۔ ایسے وقت ایک بھلا آدمی اچھے لباس والا ان کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہیں اس بیابان سے چھٹکارا دلا کر ایسی جگہ پہنچا سکتا ہوں ۔ جہاں تمہیں نتھرے ہوئے پانی کے لبالب حوض اور میووں کے لدے ہوئے درخت اور ہری بھری لہلہاتی کھیتیاں ملیں بشرطیکہ تم میرے پیچھے ہو لو ۔ انہوں نے اس کی بات کو مان لیا اور وہ انہیں ایسی ہی جگہ لے گیا وہاں انہوں نے کھایا پیا اور خوب پھلے پھولے ۔ اب اس نے کہا ۔ دیکھو میں نے تمہیں اس بھوک پیاس سے نجات دلائی اور یہاں امن چین میں لایا ۔ اب ایک اور بات تم سے کہتا ہوں وہ بھی مانو ۔ اس سے آگے اس سے بھی بہتر جگہ ہے وہاں کے حوض ، وہاں کے میوے ، وہاں کے کھیت ، اس سے بہت ہی اعلیٰ ہیں ۔ ایک جماعت نے تو اسے سچا مانا اور ہاں کر لی ۔ لیکن دوسرے گروہ نے اسی پر بس کر لیا اور اس کی تابعداری سے ہٹ گئے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:268/1:ضعیف) اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے ۔ آؤ ایک واقعہ آپ کی کمال شفقت کا سنو ! ایک اعرابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور خون بہا ادا کرنے کے لیے آپ سے امداد طلب کی ۔ آپ نے اسے بہت کچھ دیا پھر پوچھا : ” کیوں صاحب میں نے تم سے سلوک کیا “ ؟ اس نے کہا : ” کچھ بھی نہیں اس سے کیا ہو گا “ ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم بہت بگڑے ۔ قریب تھا کہ اسے لپٹ جائیں کہ اتنا لینے پر بھی یہ ناشکری کرتا ہے ؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا ایسا غلط اور گستاخانہ جواب دیتا ہے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا گھر پر تشریف لے گئے ۔ وہیں اسے بلوا لیا ۔ سارا واقعہ کہہ سنایا ۔ پھر اسے اور بھی بہت کچھ دیا ۔ پھر پوچھا : ” کہو اب تو خوش ہو “ ؟ اس نے کہا ” “ ہاں اب دل سے راضی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے اہل و عیال میں ہم سب کی طرف سے نیک بدلہ دے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” سنو ! تم آئے ۔ تم نے مجھ سے مانگا ، میں نے دیا ، پھر میں نے تم سے پوچھا کہ خوش ہو ؟ تو تم نے الٹا پلٹا جواب دیا جس سے میرے صحابی رضی اللہ عنہم تم سے نالاں ہیں ۔ اب میں نے پھر دے دلا کر تمہیں راضی کر لیا ۔ اب تم ان کے سامنے بھی اسی طرح اپنی رضا مندی ظاہر کرنا جیسے اب تم نے میرے سامنے کی ہے تاکہ ان کا رنج بھی دور ہو جائے “ ۔ اس نے کہا : ” بہت اچھا “ ۔ چنانچہ جب وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں آپ کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دیکھو یہ شخص آیا تھا اس نے مجھ سے مانگا تھا ، میں نے ایسے دیا تھا ۔ پھر میں نے اس سے پوچھا تھا ، تو اس نے ایسا جواب دیا تھا جو تمہیں ناگوار گزرا ۔ میں نے اسے پھر اپنے گھر بلوایا اور زیادہ دیا ۔ تو یہ خوش ہو گیا ۔ کیوں بھئی اعرابی یہی بات ہے “ ؟ اس نے کہا : ” ہاں یا رسول اللہ ، اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے اہل و عیال اور قبیلے کی طرف سے بہترین بدلہ عنایت فرمائے ۔ آپ نے مجھ سے بہت اچھا سلوک کیا ۔ جزاک اللہ “ اس وقت آپ نے فرمایا : ” میری اور اس اعرابی کی مثال سنو ! جیسے وہ شخص جس کی اونٹنی بھاگ گئی لوگ اس کے پکڑنے کو دوڑے ، وہ ان سے بدک کر اور بھاگنے لگی ۔ آخر اوٹنی والے نے کہا : ” لوگو ! تم ایک طرف ہٹ جاؤ مجھے اور میری اوٹنی کو چھوڑ دو ، اس کی خو خصلت سے میں واقف ہوں اور یہ میری ہی ہے “ ۔ چنانچہ اس نے نرمی سے اسے بلانا شروع کیا ۔ زمین سے گھانس پھونس توڑ کر اپنی مٹھی میں لے کر اسے دکھایا اور اپنی طرف بلایا ، وہ آ گئی ۔ اس نے اس کی نکیل تھام لی اور پالان و کجاوہ ڈال دیا ۔ سنو ! اس کے پہلی دفعہ کے بگڑنے پر اگر میں بھی تمہارا ساتھ دیتا تو یہ جہنمی بن جاتا ۔ ۱؎ 0مجمع الزوائد:16،12/9:ضعیف) ابراہیم بن حکم بن ابان کے ضعف کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ اے نبی ! مومنوں کے سامنے اپنا بازو پست رکھو ۔ لوگ میری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ میں تمہارے اعمال سے بری ہوں ۔ تو ہمیشہ اپنا بھروسہ رب عزیز و رحیم پر رکھ ۔ ۱؎ (26-الشعراء:215-217) شریعت سے منہ موڑنے والون سے بے نیازی اختیار کیجئے ؛ یہاں بھی فرماتا ہے اگر یہ لوگ تیری شریعت سے منہ پھیر لیں تو تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کافی ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میرا توکل اسی کی پاک ذات پر ہے ۔ جیسے فرمان ہے مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز ٹھہرا ۔ ۱؎ (73۔المزمل:9) وہ رب عرش عظیم ہے ۔ یعنی ہرچیز کا مالک و خالق وہی ہے ۔ عرش عظیم تمام مخلوقات کی چھت ہے ۔ آسمان و زمین اور کل کائنات بقدرت رب عرش تلے ہے ۔ اس اللہ کا علم ہرچیز پر شامل ہے اور ہرچیز کو اپنے احاطے میں کئے ہوئے ہے ۔ اس کی قدرت ہرچیز پر حاوی ہے وہ ہر ایک کا کارساز ہے ۔ ابی بن کعب فرماتے ہیں سب سے آخری آیت قرآن کی یہی ہے ۔