سورة التوبہ - آیت 124

وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب کوئی سورت (قرآنی) نازل ہوتی ہے تو ان میں کوئی ہے جو کہتا ہے کہ اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھایا ، سو وہ جو ایماندار ہیں ، انہیں کا ایمان بڑھایا اور وہی خوش ہوتے ہیں ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

فرمان الہٰی میں شک و شبہ کفر کا مرض ہے قرآن کی کوئی سورت اتری اور منافقوں نے آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ بتاؤ اس سورت نے کس کا ایمان زیادہ کر دیا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمانداروں کے ایمان تو اللہ کی آیتیں بڑھا دیتی ہیں ۔ یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس پر کہ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ۔ اکثر ائمہ اور علماء کا یہی مذہب ہے ، سلف کا بھی اور خلف کا بھی ۔ بلکہ بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ ہم اس مسئلے کو خوب تفصیل سے شرح بخاری کے شروع میں بیان کر آئے ہیں ۔ ہاں جن کے دل پہلے ہی سے شک و شبہ کی بیماری میں ہیں ان کی خرابی اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ قرآن مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے لیکن کافر تو اس سے اور بھی اپنا نقصان کر لیا کرتے ہیں ۔ ۱؎ (17-الإسراء:82) یہ ایمانداروں کے لیے ہدایت و شفاء ہے اور بے ایمانوں کے تو کانوں میں بوجھ ہے ۔ ان کی آنکھوں پر اندھاپا ہے وہ تو بہت ہی فاصلے سے پکارے جا رہے ہیں ۔ ۱؎ (41-فصلت:44) یہ بھی کتنی بڑی بدبختی ہے کہ دلوں کی ہدایت کی چیز بھی ان کی ضلالت و ہلاکت کا باعث بنتی ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عمدہ غذا بھی بدمزاج کو موافق نہیں آتی ۔