التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
یہ لوگ توبہ کرنے والے بندگی کرنے والے ، تعریف کرنے والے سفر کرنے والے ، رکوع کرنے والے ، سجدہ کرنے والے نیک باتوں کا حکم دینے والے ، اور بری باتوں سے روکنے والے ، اور حدود الہی کے تھامنے والے ہیں ‘ اور تو ایسے ایمانداروں (ف ١) ۔ کو بشارت دے ۔
مومنین کی صفات جن مومنوں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان کی پاک اور بہترین صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ تمام گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں ، برائیوں کو چھوڑتے جاتے ہیں ، اپنے رب کی عبادت پر جمے رہتے ہیں ، ہر قسم کی عبادتوں میں خاص طور پر قابل ذکر چیز اللہ کی حمد و ثنا ہے اس لیے وہ اس کی حمد بکثرت ادا کرتے ہیں اور فعلی عبادتوں میں خصوصیت کے ساتھ افضل عبادت روزہ ہے اس لیے وہ اسے بھی اچھائی سے رکھتے ہیں ۔ کھانے پینے کو ، جماع کو ترک کر دیتے ہیں ۔ یہی مراد لفظ «سَّائِحُونَ» سے یہاں ہے ۔ یہی وصف نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں کا قرآن نے بیان فرمایا ہے «سائحات » ( التحریم : 5 ) اور یہی لفظ «سائحات» وہاں بھی ہے ۔ رکوع سجود کرتے رہتے ہیں ۔ یعنی نماز کے پابند ہیں ۔ اللہ کی ان عبادتوں کے ساتھ ہی ساتھ مخلوق کے نفع سے بھی غافل نہیں ۔ اللہ کی اطاعت کا ہر ایک کو حکم کرتے ہیں ۔ برائیوں سے روکتے رہتے ہیں ۔ خود علم حاصل کر کے بھلائی برائی میں تمیز کر کے اللہ کے احکام کے حفاظت کر کے پھر اوروں کو بھی اس کی رغبت دیتے ہیں ۔ حق تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق کی حفاظت دونوں زیر نظر رکھتے ہیں ۔ یہی باتیں ایمان کی ہیں اور یہی اوصاف مومنوں کے ہیں ۔ انہیں خو شخبریاں ہوں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سیاحت سے مراد روزہ لیتے ہیں ۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی بلکہ آپ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے وہاں یہی مطلب ہے ۔ ضحاک بھی یہی کہتے ہیں ۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ۔ کہ اس امت کی سیاحت روزہ ہے ۔ مجاہد ، سعید ، عطاء ، عبدالرحمٰن ، ضحاک سفیان وغیرہ کہتے ہیں کہ مراد «سَّائِحُونَ» سے «صائمون» ہے ۔ یعنی جو روزے رمضان کے رکھیں ۔ ابوعمرو کہتے ہیں روزہ پر دوام کرنے والے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ مراد« سَّائِحُونَ »سے روزے دار ہیں لیکن اس حدیث کا موقف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لفظ کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے یہ فرمایا ۔ تمام اقوال سے زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور تو یہی قول ہے ۔ اور ایسی دلیلیں بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مراد سیاحت سے اللہ کی راہ میں جہاد ہے ۔ ابوداؤد میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ مجھے سیاحت کی اجازت دیجئیے ۔ آپ نے فرمایا میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجلس میں سیاحت کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے اپنی راہ کا جہاد اور ہر اونچائی پر اللہ اکبر کہنا عطا فرمایا ہے ۔ عکرمہ فرماتے ہیں اور مراد اس سے علم دین کے طالب علم ہیں ۔ عبدالرحمٰن فرماتے ہیں اللہ کی راہ کے مہاجر ہیں ۔ بعض لوگ صوفیہ طبقہ کے جو اس سے مراد لیتے ہیں کہ زمین کی سیر کرنا ، سفر میں رہنا ، ادھر ادھر جانا آنا ، پہاڑوں ، دوروں ، جنگلوں اور بندوں میں پھرنا اس کا نام سیاحت ہے ، یہ محض غلط فہمی ہے ، یہ سیاحت مشروع نہیں ۔ ہاں اللہ نہ کرے اگر بستی میں رہنے سے دین میں کوئی فتنہ پڑنے کا اندیشہ ہو تو اور بات ہے ۔ جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں قریب ہے کہ مومن کا سب سے بہتر مال بکریاں بن جائیں جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں میں پڑا رہے ، اپنے دین کو لے کر فتنوں سے بھاگتا اور بچتا رہے ۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے یعنی بقول ابن عباس اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہنے والے بقول حسن بصری فرائض کی پابندی کرنے والے ، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجا لانے والے ۔