إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
مسلمانوں سے ان کی جانیں اور مال اللہ نے بہشت کے بدلے خرید کی ہیں ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ، پھر مارتے اور مرتے ہیں ، یہ سچا وعدہ ہے جو اللہ پر لازم ہے ، اور توریت اور انجیل اور قرآن میں لکھا ہے ۔ اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہے ، سو اپنی اس بیع پر جو تم نے اس سے کی ، خوشی کرو ، اور یہ بڑی مراد پانی ہے (ف ١) ۔
مجاہدین کے لئے استثنائی انعامات اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن بندے جب راہ حق میں اپنے مال اور اپنی جانیں دیں ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم سے انہیں جنت عطا فرمائے گا ۔ بندہ اپنی چیز جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی ہے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس کی اطاعت گذاری سے مالک الملک خوش ہو کر اس پر اپنا اور فضل کرتا ہے سبحان اللہ کتنی زبردست اور گراں قیمت پروردگار کیسی حقیر چیز پر دیتا ہے ۔ دراصل ہر مسلمان اللہ سے یہ سودا کر چکا ہے ۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اسے پورا کرے یا یونہی اپنی گردن میں لٹکائے ہوئے دنیا سے اٹھ جائے ۔ اسی لیے مجاہدین جب جہاد کے لیے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اسنے اللہ تعالیٰ سے بیوپار کیا ۔ یعنی وہ خرید و فروخت جسے وہ پہلے سے کر چکا تھا اس نے پوری کی ۔ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لیلۃالعقبہ میں بیعت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے لیے اور اپنے لیے جو چاہیں شرط منوالیں ۔ آپ نے فرمایا میں اپنے رب کے لیے تم سے یہ شرط قبول کراتا ہوں کہ اسی کی عبادت کرنا ، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا ۔ اور اپنے لیے تم سے اس بات کی پابندی کراتا ہوں کہ جس طرح اپنی جان و مال کی حفاظت کرتے ہو میری بھی حفاظت کرنا ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا جب ہم یونہی کریں تو ہمیں کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جنت ! یہ سنتے ہی خوشی سے کہنے لگا واللہ اس سودے میں تو ہم بہت ہی نفع میں رہیں گے ۔ بس اب پختہ بات ہے نہ ہم اسے توڑیں گے نہ توڑنے کی درخواست کریں گے پس یہ آیت نازل ہوئی یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ، نہ اس کی پرواہ ہوتی ہے کہ ہم مارے جائیں گے نہ اللہ کے دشمنوں پر وار کرنے میں انہیں تامل ہوتا ہے ، مرتے ہیں اور مارتے ہیں ۔ ایسوں کے لیے یقیناً جنت واجب ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا ہو جہاد کے لیے ، رسولوں کی سچائی مان کر ، اسے یا تو فوت کر کے بہشت بریں میں اللہ تبارک و تعالیٰ لے جاتا ہے یا پورے پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس اسے لوٹاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمے ضروری کر لی ہے اور اپنے رسولوں پر اپنی بہترین کتابوں میں نازل بھی فرمائی ہے ۔ موسیٰ پر اتری ہوئی تورات میں ، عیسیٰ پر اتری ہوئی انجیل میں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے ہوئے قرآن میں اللہ کا یہ وعدہ موجود ہے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین ۔ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ اللہ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ نہ اس سے زیادہ سچائی کسی کی باتوں میں ہوتی ہے ۔ «وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیثاً» ( 4-النساء : 87 ) اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہوگا«وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِیلاً» ( 4-النساء : 122 ) اور کون ہے جو اپنی بات میں اللہ سے زیادہ سچا ہو ۔ «فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمُ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِہِ ۚ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ» ( التوبہ-۱۱۱ ) جس نے اس خرید و فروخت کو پورا کیا اس کے لیے خوشی ہے اور مبارکباد ہے ، وہ کامیاب ہے اور جنتوں کی ابدی نعمتوں کا مالک ہے ۔