وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور دوسرے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کو مان لیا ، اور اپنے بھلے اور برے کام کو ملا دیا شاید اللہ انہیں معاف کرے ، بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے (ف ٢) ۔
تساہل اور سستی سے بچو جب اللہ تعالیٰ ان منافقوں کا حال بیان کر چکا جو مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہونے سے رکے گئے تھے ۔ اور شریک جنگ سے بے رغبتی ، تکذیب اور شک کا مظاہرہ کرتے تھے تو پھر ان گنہگاروں کا ذکر شروع کرتا ہے جو جہاد میں شریک ہونے سے باز رہے تھے صرف سستی اور آرام طلبی کے سبب حالانکہ انہیں تصدیق حق اور ایمان حاصل تھا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان منافقین کے سوا اور دوسرے لوگ جو جہاد سے دک رہے ، انہوں نے اپنے قصور کا اعتراف و اقرار کر لیا ۔ لیکن یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے دوسرے اعمال صالحہ بھی ہیں ، اور ان اعمال صالحہ کے ساتھ اپنی بعض تقصیرات جیسے جہاد سے باز رہنا بھی انہوں نے شامل کر دیا ہے لیکن ان کی اس تقصیر کو اللہ پاک نے معاف فرما دیا ہے ۔ اور ان منافقین کی تقصیر کو وہ معاف نہیں کرے گا اور ان کے کوئی اعمال صالح ہیں بھی نہیں ۔ یہ آیت اگرچہ چند معین اشخاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن سارے مخلص خطاکاروں اور گنہگاروں پر بھی عام ہے ۔ اور مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ ابولبابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب انہوں نے بنی قریظہ سے کہا تھا کہ یہ ذبح کی جگہ ہے اور ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ «اَخَرُوْنَ» سے مراد ابولبابہ اور ان کے اصحاب کی جماعت ہے جو غزوہ تبوک میں شرکت جہاد سے پہلو تہی کئے ہوئے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ابو لبابہ کے ساتھ پانچ آدمی اور تھے ، یا سات تھے ، یا نو تھے ، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس ہوئے تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا اور قسم کھا لی تھی کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہم کو نہ کھولیں ، ہم نہ کھولیں جائیں ۔ اور جب یہ آیت «وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھول دیا اور ان کا جنگ سے کوتاہی کا قصور معاف کر دیا ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کی رات دو آدمی میرے پاس آئے اور مجھے ایک ایسے شہر تک لے آئے جو چاندی اور سونے کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا وہاں ہمیں بعض ایسے آدمی دکھائی دئیے کہ ان کا آدھا حصہ تو نہایت ہی خوش منظر تھا اور دوسرا آدھا حصہ جسم نہایت ہی بد صورت کہ دیکھنے کو جی نہ چاہے ۔ میرے ان ساتھیوں نے ان سے کہا کہ تم اس نہر میں غوطہ لگاؤ وہ غوطہ لگا کر جب باہر نکلے تو ان کا یہ عیب جاتا رہا اور ان کے اجسام سب کے سب حسین دکھائی دیتے تھے ۔ میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ یہ جنت عدن ہے اور یہی تمھاری منزل ہے اور کہا کہ وہ لوگ جن کا آدھا جسم خوبصورت سا تھا اور آدھا جسم نہایت بد صورت سا تھا سو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اعمال نیک کے ساتھ اعمال بد بھی ملا رکھے تھا اور اللہ عز و جل کی حدود سے تجاوز کر گئے تھے ۔ (صحیح بخاری:4674:صحیح) اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے مختصراً اسی طرح روایت کی ہے ۔