سورة التوبہ - آیت 97

الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

دیہاتی لوگ کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں ، اور جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ، اس کے قاعدے نہ سیکھنے کے زیادہ لائق ہیں اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

دیہات، صحرا اور شہر ہر جگہ انسانی فطرت یکساں ہے اللہ تعالیٰ نے خبر دیٍ ہے کہ دیہاتیوں اور صحرا نشین بدؤں میں کفار بھی ہیں اور مومنین بھی ۔ لیکن ان کا کفر اور ان کا نفاق دوسروں کی بہ نسبت بہت عظیم اور شدید ہوتا ہے اور وہ اسی بات کے سزاوار ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے رسول پر جو بھی حدود و احکام نازل فرمائے ہیں ان سے بےخبر ہیں ۔ جیسے کہ اعمش نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ایک اعرابی بدوی زید بن صوحان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور وہ اپنے ساتھیوں سے باتیں کر رہے تھے اور جنگ نہاوند میں ان کا ہاتھ کٹ گیا تھا ۔ اعرابی ان سے کہنے لگا کہ ” تمہاری باتیں تو بڑی پیاری ہیں اور تم بڑے اچھے آدمی معلوم ہوتے ہو لیکن یہ تمہارا کٹا ہوا ہاتھ مجھے تمہارے بارے میں شک پیدا کرتا ہے “ تو زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ” میرے کٹے ہوئے ہاتھ سے تمہیں شک کیوں ہوتا ہے یہ تو بایاں ہاتھ ہے “ ۔ تو اعرابی نے کہا : ” واللہ ! میں نہیں جانتا کہ چوری میں بایاں ہاتھ کاٹتے ہیں یا دایاں ہاتھ ۔ تو زید بن صوحان بول اٹھے کہی اللہ عزوجل نے سچ فرمایا تھا کہ «الأَعرابُ أَشَدٰ کُفرًا وَنِفاقًا وَأَجدَرُ أَلّا یَعلَموا حُدودَ ما أَنزَلَ اللہُ عَلیٰ رَسولِہِ» یعنی یہ کفار اعراب اسی کے سزاوار ہیں کہ حدود اللہ سے نا واقف ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ نے بالاسناد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” جو صحرا نشین ہو وہ گویا جلا وطن ہے اور جو شکار کے پیچھے دوڑا دوڑا پھرتا ہے بڑا ہی بے سمجھ ہے اور جس نے کسی بادشاہ کی ہمنشینی اختیار کی وہ فتنہ سے دوچار ہو گیا “ ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2859،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد اور ترمذی ، نسائی میں بھی سفیان ثوری رحمہ اللہ سے یہ حدیث مروی ہے ۔ ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن غریب بتایا ہے ۔ ثوری رحمہ اللہ سے روایت کے سوا اور کسی سے روایت کا ہمیں علم نہیں ۔ صحرا نشینوں میں چونکہ عموماً بدمزاجی اجڈپن اور بدتمیزی ہوتی ہے اس لئے اللہ عزوجل نے ان میں اپنا رسول نہیں پیدا کیا ۔ بعثت نبوت ہمیشہ شہری اور مہذب لوگوں میں ہوا کرتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نٰوحِی إِلَیْہِم مِّنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ» ۱؎ (12-یوسف:109) یعنی ہم نے تم سے پہلے بھی جتنے رسولوں کو انسانوں کی طرف بھیجا وہ سب شہری اور متمدن بستیوں کے لوگ تھے ۔ ایک مرتبہ ایک اعرابی نے اپنا ہدیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا تو اس وقت تک اس کا دل خوش نہ ہوا جب تک کہ اس سے کئی گناہ زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس نہ بھیج دیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اب سے میں نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ قریشی ، ثقفی ، انصاری اور دوسی کے سوا کسی کا ہدیہ قبول نہ کروں گا ۔ ۱؎ (مسند احمد:2687:صحیح) دعاؤں کے طلبگار متبع ہیں، مبتدع نہیں! کیونکہ یہ لوگ متمدن شہری ہیں مکہ ، طائف ، مدینہ اور یمن میں رہتے ہیں اخلاق میں یہ بدویوں سے بہت اچھے ہوتے ہیں کیونکہ اعرابی بہت اجڈ ہوتے ہیں ۔ حدیث مسلم بالاسناد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ چند بدوی اللہ کے رسول ﷺ کی پاس حاظر ہوئے اور کہنے لگے : ” کیا تم اپنے بچوں کو چومتے ہو ؟ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا ہاں ۔ تو انہوں نے کہا : ” لیکن اللہ کی قسم ہم نہیں چومتے “ ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اگر اللہ نے تمہارے دلوں سے محبت اور رحمت کو نکال دیا ہے تو کیا میں اس کا ذمہ دار ہوں “ ؟ ۱؎ (صحیح بخاری:5998) اور اللہ خوب واقف ان لوگوں سے جو اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں علم اور ایمان کی توفیق دی جائے اور اس نے اپنے بندوں میں علم ، جہل ایمان ، کفر اور نفاق کی تقسیم بڑی دانشوری سے کی ہے ۔وہ اپنی حکمت اور علم کی بنا پر جو کچھ کرتا ہے کون اس پر حرف گیری کر سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان میں ایسے کم حوصلہ بھی ہیں کہ اللہ کی راہ میں اگر وہ کچھ خرچ کرتے ہیں تو اس کو تاوان اور خسارہ سمجھ بیٹھتے ہیں ، اور تم پر حوادث و آفات کے منتظر ہیں ۔ لیکن یہ حوادث انہیں پر منعکس ہوں گے اور گھوم ہھر کر انہیں پر نازل ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پکار کو سننے والا ہے ۔ اور اس بات کو جانتا ہے کہ ذلت خذلان و نامرادی کا مستحق کون ہے اور نصرہ و کامیابی کا کون سزاوار ہے ؟ اور اعراب کی ایک اور قسم ممدوح ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو اس اللہ کے پاس قربت اور پسندیدگی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے سبب اپنے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائے خیر حاصل ہو ۔ ہاں یقیناً یہ انفاق ان کے لئے قربت الہٰی کا سبب ہوگا اور اللہ پاک ان کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا ۔ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔