سورة التوبہ - آیت 5

فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ ، قتل کرو ، اور پکڑو ۔ اور گھیرو ، اور ہر گھات کی جگہ میں ان کے لئے بیٹھو ، پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز پڑھیں ، اور زکوہ دیں ، تو تم ان کی راہ چھوڑ دو (چاہیں پھریں) اللہ بخشنے اور مہربان ہے (ف ١) ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

جہاد اور حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں وہ چار مہینے ہیں جن کا ذکر« مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ » ۱؎ ( 9- التوبہ : 36 ) میں ہے پس ان کے حق میں آخری حرمت والا مہینہ محرم الحرام کا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ضحاک رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے لیکن اس میں ذرا تأمل ہے بلکہ مراد اس سے یہاں وہ چار مہینے ہیں جن میں مشرکین کو پناہ ملی تھی کہ ان کے بعد تم سے لڑائی ہے ۔ چنانچہ خود اسی سورت میں اس کا بیان اور آیت میں آ رہا ہے ۔ فرماتا ہے ان چار ماہ کے بعد مشرکوں سے جنگ کرو انہیں قتل کرو انہیں گرفتار کرو جہاں بھی پالو ۔ پس یہ عام ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ خاص ہے حرم میں لڑائی نہیں ہو سکتی ۔ جیسے فرمان ہے « وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ» ۱؎ ( 2- البقرۃ : 191 ) مسجد الحرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک کہ وہ اپنی طرف سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں ۔ اگر یہ وہاں تم سے لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑائی کرنے کی اجازت ہے چاہو قتل کرو چاہو قید کر لو ان کے قلعوں کا محاصرہ کرو ان کے لیے ہر گھاٹی میں بیٹھ کر تاک لگاؤ انہیں زد پر لا کر مارو ۔ یعنی یہی نہیں کہ مل جائیں تو جھڑپ ہو جائے خود چڑھ کر جاؤ ۔ ان کی راہیں بند کرو اور انہیں مجبور کر دو کہ یا تو اسلام لائیں یا لڑیں ۔ اس لیے فرمایا کہ اگر وہ توبہ کر لیں ، پابند نماز ہو جائیں ، زکوٰۃ دینے لگیں تو بےشک ان کی راہیں کھول دو ان پر سے تنگیاں اٹھالو ۔ زکوٰۃ کے مانعین سے جہاد کرنے کی اسی جیسی آیتوں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دلیل لی تھی کہ لڑائی اس شرط پر حرام ہے کہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اسلام کے واجبات بجا لائیں ۔ اس آیت میں ارکان اسلام کو ترتیب وار بیان فرمایا ہے اعلٰی پھر ادنٰی پس شہادت کے بعد سب سے بڑا رکن اسلام نماز ہے جو اللہ عزوجل کا حق ہے ۔ نماز کے بعد زکوٰۃ ہے جس کا نفع فقیروں ، مسکینوں ، محتاجوں کو پہنچتا ہے اور مخلوق کا زبردست حق جو انسان کے ذمے ہے ادا ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا ذکر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مجھے حکم کیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد جاری رکھوں ۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ کوئی معبود بجز اللہ کے نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ۔ “ ۱؎ الخ (صحیح بخاری:25) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ” تمہیں نمازوں کے قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم کیا گیا ہے جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز بھی نہیں ۔ “ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ ہرگز کسی کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے ۔ “ اللہ تعالیٰ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے آپ کی فقہ سب سے بڑھی ہوئی تھی جو آپ نے زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے ۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ بجز اللہ تعالیٰ برحق کے اور کوئی لائق عبادت نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ جب وہ ان دونوں باتوں کا اقرار کر لیں ہمارے قبلے کی طرف منہ کر لیں ، ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں ، ہم جیسی نمازیں پڑھنے لگیں تو ہم پر ان کے خون ان کے مال حرام ہیں مگر احکام اسلام حق کے ماتحت انہیں ہر وہ حق حاصل ہے جو اور مسلمانوں کا ہے اور ان کے ذمے ہر وہ چیز ہے جو اور مسلمانوں کے ذمے ہے ۔ “ یہ روایت صحیح بخاری میں اور سنن میں بھی ہے سوائے ابن ماجہ کے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:392) ابن جریر میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جو دنیا سے اس حال میں جائے کہ اللہ تعالیٰ اکیلے کی خالص عبادت کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو وہ اس حال میں جائے گا کہ اللہ اس سے خوش ہو گا ۔ “ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” یہی اللہ کا دین ہے اسی کو تمام پیغمبر علیہم السلام لائے تھے اور اپنے رب کی طرف سے اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا تھا اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں ادھر ادھر لگ جائیں ۔ اس کی سچائی کی شہادت اللہ تعالیٰ کی آخری وحی میں موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے « فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلٰوا سَبِیلَہُمْ» ۱؎ ( 9-التوبہ : 5 ) پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق ہے پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق کے سوا اوروں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں نماز اور زکوٰۃ کے پابند ہو جائیں ۔ اور آیت میں ہے کہ ان تینوں کاموں کے بعد وہ تمہارے دینی برادر ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13489:ضعیف) ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” یہ تلوار کی آیت ہے اس نے ان تمام عہد و پیمان کو چاک کر دیا جو مشرکوں سے تھے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ” برأت کے نازل ہونے پر چار مہینے گزر جانے کے بعد کوئی عہد و ذمہ باقی نہیں رہا ، پہلی شرطیں برابری کے ساتھ توڑ دی گئیں اب اسلام اور جہاد باقی رہ گیا “ ۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار تلواروں کے ساتھ بھیجا ایک تو مشرکین عرب میں“ ۔ فرماتا ہے «فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتٰمُــوْہُمْ » ۱؎ ( 9- التوبہ : 5 ) مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو ۔ یہ روایت اسی طرح مختصراً ہے ۔ میرا خیال ہے کہ دوسری تلوار اہل کتاب میں ، فرماتا ہے« قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ » ۱؎ ( 9- التوبہ : 29 ) الخ اللہ تبارک و تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں اور اللہ تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حرام کردہ کو حرام نہ ماننے والوں اور اللہ تعالیٰ کے سچے دین کو قبول کرنے والوں سے جو اہل کتاب ہیں جہاد کرو تاوقتیکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا قبول نہ کر لیں ۔ تیری تلوار منافقوں میں ، فرمان ہے« یٰٓاَیٰھَا النَّبِیٰ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ » ۱؎ ( 9- التوبہ : 73 ) اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو ۔ چوتھی تلوار باغیوں میں ، ارشاد ہے« وَاِنْ طَایِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا » ۱؎ ( 49- الحجرات : 9 ) اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کرا دو پھر بھی اگر کوئی جماعت دوسری کو دباتی چلی جائے تو ان باغیوں سے تم لڑو جب تک کہ وہ پلٹ کر اللہ کے حکم کی ماتحتی میں نہ آ جائیں ۔ ضحاک رحمہ اللہ اور سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ” آیت یہ تلوار آیت «فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً » ۱؎ ( 47-محمد : 4 ) سے منسوخ ہے “ یعنی بطور احسان کے یا فدیہ لے کر کافر قیدیوں کو چھوڑ دو ۔ قتادہ رحمہ اللہ اس کے برعکس کہتے ہیں کہ ” پچھلی آیت پہلی سے منسوخ ہے “ ۔