وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور کہتے کہ جنت میں ہرگز کوئی نہ جائے گا ، جب تک کہ یہودی یا نصرانی نہ ہوجائے ، یہ ان کی آرزوئیں ہیں ، تو کہہ تم اپنی دلیل (سند) لاؤ اگر سچے ہو (ف ٣) ۔
شیطان صفت مغرور یہودی یہاں پر یہودیوں اور نصرانیوں کے غرور کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو کچھ بھی نہیں سمجھتے اور صاف کہتے ہیں کہ ہمارے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گا سورۃ المائدہ میں ان کا ایک قول یہ بھی بیان ہوا ہے کہ«نَحْنُ أَبْنَاءُ اللہِ وَأَحِبَّاؤُہُ» ( 5-المائدہ : 18 ) ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں ،(5-المائدۃ:18) جس کے جواب میں قرآن نے کہا کہ پھر تم پر قیامت کے دن عذاب کیوں ہو گا ؟ اسی طرح کے مفہوم کا بیان پہلے بھی گزرا ہے کہ ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ ہم چند دن جہنم میں رہیں گے جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا کہ یہ دعویٰ بھی محض بے دلیل ہے اسی طرح یہاں ان کے ایک دعویٰ کی تردید کی اور کہا کہ لاؤ دلیل پیش کرو ، انہیں عاجز ثابت کر کے پھر فرمایا کہ ہاں جو کوئی بھی اللہ کا فرمانبردار ہو جائے اور خلوص و توحید کے ساتھ نیک عمل کرے اسے پورا پورا اجر و ثواب ملے گا ، جیسے اور جگہ فرمایا کہ«فَإِنْ حَاجٰوکَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْہِیَ لِلہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ» ( 3-آل عمران : 20 ) یہ اگر جھگڑیں تو ان سے کہ دو کہ میں اور میرے ماننے والوں نے اپنے چہرے اللہ کے سامنے متوجہ کر دیئے ہیں ۔(3-آل عمران:20) غرض یہ ہے کہ اخلاص اور مطابقت سنت ہر عمل کی قبولیت کے لیے شرط ہے تو «أَسْلَمَ وَجْہَہ» سے مراد خلوص(تفسیر ابن ابی حاتم:3371/1) اور «وَہُوَ مُحْسِنٌ» سے مراد اتباع سنت ہے نرا خلوص بھی عمل کو مقبول نہیں کرا سکتا جب تک سنت کی تابعداری نہ ہو حدیث شریف میں ہے جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے ۔ (صحیح مسلم:1718) پس رہبانیت کا عمل گو خلوص پر مبنی ہو لیکن تاہم اتباع سنت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مردود ہے ایسے ہی اعمال کی نسبت قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت «وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاءً مَّنْثُوْرًا» ( 25 ۔ الفرقان : 23 ) یعنی انہوں نے جو اعمال کئے تھے ہم نے سب رد کر دیئے دوسری جگہ فرمایا کافروں کے اعمال ریت کے چمکیلے تودوں کی طرح ہیں جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس جاتا ہے تو کچھ نہیں پاتا ۔ (24-النور:39) اور جگہ ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہروں پر ذلت برستی ہو گی جو عمل کرنے والے تکلیفیں اٹھانے والے ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے اور گرم کھولتا ہوا پانی انہیں پلایا جائے گا ۔ (88-الغاشیۃ:2-5)امیر المؤمنین عمر بن خطاب نے اس آیت کی تفسیر میں مراد یہود و نصاریٰ کے علماء اور عابد لیے ہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ کوئی عمل گو بظاہر سنت کے مطابق ہو لیکن عمل میں اخلاص نہ ہو مقصود اللہ کی خوشنودی نہ ہو تو وہ عمل بھی مردود ہے ریا کار اور منافق لوگوں کے اعمال کا بھی یہی حال ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ «إِنَّ الْمُنَافِقِینَ یُخَادِعُونَ اللہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَی الصَّلَاۃِ قَامُوا کُسَالَیٰ یُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُونَ اللہَ إِلَّا قَلِیلًا» ( 4-النسأ : 142 ) منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں دھوکہ دیتا ہے اور نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں اور فرمایا آیت «فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّینَ الَّذِینَ ہُمْ عَن صَلَاتِہِمْ سَاہُونَ» ( 107-الماعون : 4 ، 7 ) ان نمازیوں کے لیے ویل ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی روکتے پھرتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت «فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَاءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا» ( 18 ۔ الکہف : 110 ) جو شخص اپنے رب کی ملاقات کا آرزو مند ہو اسے نیک عمل کرنا چاہیئے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا چاہیئے ۔ پھر فرمایا انہیں ان کا رب اجر دے گا اور ڈر خوف سے بچائے گا آخرت میں انہیں ڈر نہیں اور دنیا کے چھوڑنے کا ملال نہیں ۔ پھر یہود و نصاریٰ کی آپس کی بغض و عداوت کا ذکر فرمایا ، نجران کے نصرانیوں کا وفد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو ان کے پاس یہودیوں کے علماء بھی آئے اس وقت ان لوگوں نے انہیں اور انہوں نے ان کو گمراہ بتایا حالانکہ دونوں اہل کتاب ہیں توراۃ میں انجیل کی تصدیق اور انجیل میں توراۃ کی تصدیق موجود ہے پھر ان کا یہ قول کس قدر لغو ہے ، اگلے یہود و نصاریٰ دین حق پر قائم تھے لیکن پھر بدعتوں اور فتنہ پردازیوں کی وجہ سے دین ان سے چھن گیا اب نہ یہود ہدایت پر تھے نہ نصرانی ۔ پھر فرمایا کہ نہ جاننے والوں نے بھی اسی طرح کہا اس میں بھی اشارہ انہی کی طرف ہے اور بعض نے کہا مراد اس سے یہود و نصاریٰ سے پہلے کے لوگ ہیں ۔ بعض کہتے ہیں عرب لوگ مراد ہیں ۔ امام ابن جریر اس سے عام لوگ مراد لیتے ہیں گویا سب شامل ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرمایا کہ اختلاف کا فیصلہ قیامت کو خود اللہ تعالیٰ کرے گا جس دن کوئی ظلم و زور نہیں ہو گا اور یہی مضمون دوسری جگہ بھی آیا ہے سورۃ الحج میں ارشاد ہے آیت «اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ» ( 22 ۔ الحج : 17 ) یعنی مومنوں اور یہودیوں اور صابیوں اور نصرانیوں اور مجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن اللہ فیصلہ فرمائے گا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ اور موجود ہے اور جگہ ارشاد ہے آیت «قُلْ یَجْمَعُ بَیْـنَنَا رَبٰنَا ثُمَّ یَفْتَـحُ بَیْـنَنَا بِالْحَقِّ وَہُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـیْمُ» ( 34 ۔ سبأ : 26 ) کہہ دے کر ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا پھر حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا ۔ وہ باخبر فیصلے کرنے والا ہے ۔