إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ
جب اس نے تم پر اونگھ ڈالی ، جو اس کی طرف سے پیغام امن تھی ، اور آسمان سے مینہ برسایا ‘ تاکہ اس پانی سے تمہیں پاک کرے ‘ اور شیطانی نجاست تم سے دفع کرے ، اور تمہارے دلوں پر محکم گرہ لگائے ، اور تمہارے قدم ثابت کرے (ف ٢) ۔
. تائید الٰہی کے بعد فتح و کامرانی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے احسانات بیان فرماتا ہے کہ اس جنگ بدر میں جبکہ اپنی کمی اور کافروں کی زیادتی ، اپنی بےسرو سامانی اور کافروں کے پر شوکت سروسامان دیکھ کر مسلمانوں کے دل پر برا اثر پڑ رہا تھا پروردگار نے ان کے دلوں کے اطمینان کیلئے ان پر اونگھ ڈال دی جنگ احد میں بھی یہی حال ہوا تھا جیسے فرمان ہے آیت « ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً نٰعَاسًا یَّغْشٰی طَاۗیِٕفَۃً مِّنْکُمْ ۙ وَطَاۗیِٕفَۃٌ قَدْ اَہَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ» ۱؎ ( 3- آل عمران : 154 ) ، یعنی ’ پورے غم و رنج کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں امن دیا جو اونگھ کی صورت میں تمہیں ڈھانکے ہوئے تھا ایک جماعت اسی میں مشغول تھی ۔ ‘ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد والے دن اونگھ غالب آ گئی تھی اس وقت میں نیند میں جھوم رہا تھا میری تلوار میرے ہاتھ سے گر پڑتی تھی اور میں اٹھاتا تھا میں نے جب نظر ڈالی تو دیکھا کہ لوگ ڈھالیں سروں پر رکھے ہوئے نیند کے جھولے لے رہے ہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ بدر والے دن ہمارے پورے لشکر میں گھوڑ سوار صرف ایک ہی مقداد تھے میں نے نگاہ بھر کر دیکھا کہ سارا لشکر نیند میں مست ہے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت تلے نماز میں مشغول تھے روتے جاتے تھے اور نماز پڑھتے جاتے تھے صبح تک آپ اسی طرح مناجات میں مشغول رہے ۔۱؎ (مسند احمد:125/1:صحیح) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی للہ عنہ فرماتے ہیں کہ میدان جنگ میں اونگھ کا آنا اللہ کی طرف سے امن کا ملنا ہے اور نماز میں اونگھ کا آنا شیطانی حرکت ہے ، اونگھ صرف آنکھوں میں ہی ہوتی ہے اور نیند کا تعلق دل سے ہے ۔ یہ یاد رہے کہ اونگھ آنے کا مشہور واقعہ تو جنگ احد کا ہے لیکن اس آیت میں جو بدر کے واقعہ کے قصے کے بیان میں اونگھ کا اترنا موجود ہے پس سخت لڑائی کے وقت یہ واقعہ ہوا اور مومنوں کے دل اللہ کے عطا کردہ امن سے مطمئن ہو گئے یہ بھی مومنوں پر اللہ کا فضل و کرم اور اس کا لطف و رحم تھا« فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا» ۱؎ ( 94-الشرح : 5 ، 6 ) سچ ہے سختی کے بعد آسانی ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھپر تلے دعا میں مشغول تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اونگھنے لگے ۔ تھوڑی دیر میں جاگے اور تبسم فرما کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: { خوش ہو یہ ہیں جبرائیل علیہ السلام گرد آلود پھر آیت قرآنی «سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلٰونَ الدٰبُرَ» ۱؎ ( 54-القمر : 45 ) پڑھتے ہوئے جھونپڑی کے دروازے سے باہر تشریف لائے ۔ یعنی ابھی ابھی یہ لشکر شکست کھائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2915) دوسرا احسان اس جنگ کے موقعہ پر یہ ہوا کہ بارش برس گئی۔ قولہ تعالٰی «وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً» یعنی ’ اللہ نے تم پر آسمان سے پانی برسایا ۔ ‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مشرکوں نے میدان بدر کے پانی پر قبضہ کر لیا تھا مسلمانوں کے اور پانی کے درمیان وہ حائل ہو گئے تھے مسلمان کمزوری کی حالت میں تھے شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالنا شروع کیا کہ تم تو اپنے تئیں اللہ والے سمجھتے ہو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے میں موجود مانتے ہو اور حالت یہ ہے کہ پانی تک تمہارے قبضہ میں نہیں مشرکین کے ہاتھ میں پانی ہے تم نماز بھی جنبی ہونے کی حالت میں پڑھ رہے ہو ایسے وقت آسمان سے مینہ برسنا شروع ہوا اور پانی کی ریل پیل ہو گئی ۔ مسلمانوں نے پانی پیا بھی ، پلایا بھی ، نہا دھو کر پاکی بھی حاصل کر لی اور پانی بھر بھی لیا اور شیطانی وسوسہ بھی زائل ہو گیا اور جو چکنی مٹی پانی کے راستے میں تھی دھل کر وہاں کی سخت زمین نکل آئی اور ریت جم گئی کہ اس پر آمد ورفت آسان ہو گئی اور فرشتوں کی امداد آسمان سے آ گئی پانچ سو فرشتے تو جبرائیل علیہ السلام کی ما تحتیٰ میں اور پانچ سو میکائیل کی ما تحتیٰ میں ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15783:ضعیف و منقطع) مشہور یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر کی طرف تشریف لے چلے تو سب سے پہلے جو پانی تھا وہاں ٹھہرے حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا کہ اگر آپ کو اللہ کا حکم یہاں پڑاؤ کرنے کا ہوا تب تو خیر اور اگر جنگی مصلحت کے ساتھ پڑاؤ یہاں کیا ہو تو آپ اور آگے چلئے آخری پانی پر قبضہ کیجئے وہیں حوض بنا کر یہاں کے سب پانی وہاں جمع کر لیں تو پانی پر ہمارا قبضہ رہے گا اور دشمن پانی بغیر رہ جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کیا بھی ۔۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:0000،) مغازی اموی میں ہے کہ اس رائے کے بعد جبرائیل علیہ السلام کی موجودگی میں ایک فرشتے نے آ کر آپ کو سلام پہنچایا اور اللہ کا حکم بھی کہ یہی رائے ٹھیک ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ انہیں جانتے ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا میں آسمان کے تمام فرشتوں سے واقف نہیں ہوں ہاں ہیں یہ فرشتے شیطان نہیں ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ مشرکین ڈھلوان کی طرف تھے اور مسلمان اونچائی کی طرف تھے بارش ہونے سے مسلمانوں کی طرف تو زمین دھل کر صاف ہو گئی اور پانی سے انہیں نفع پہنچا لیکن مشرکین کی طرف پانی کھڑا ہو گیا ۔ کیچڑ اور پھسلن ہو گئی کہ انہیں چلنا پھرنا دو بھر ہو گیا بارش اس سے پہلے ہوئی تھی غبار جم گیا تھا زمین سخت ہو گئی تھی دلوں میں خوشی پیدا ہو گئی تھی ثابت قدمی میسر ہو چکی تھی اب اونگھ آنے لگی اور مسلمان تازہ دم ہو گئے ۔ صبح لڑائی ہونے والی ہے رات کو ہلکی سی بارش ہو گئی ہم درختوں تلے جاچھپے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلاتے رہے ۔ یہ اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کر دے وضو بھی کر لو اور غسل بھی اس ظاہری پاکی کے ساتھ ہی باطنی پاکیزگی بھی حاصل ہوئی شیطانی وسوسے بھی دور ہو گئے دل مطمئن ہو گئے جیسے کہ جنتیوں کے بارے میں فرمان ہے کہ آیت « عَالِیَہُمْ ثِیَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ ۖ وَحُلٰوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّۃٍ وَسَقَاہُمْ رَبٰہُمْ شَرَابًا طَہُورًا» ۱؎ ( 76-الإنسان : 21 ) ، یعنی ’ ان کے بدن پر نہیں اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنکھن پہنائے جائیں گے اور انہیں ان کا رب پاک اور پاک کرنے والا شربت پلائے گا ۔ ‘ پس لباس اور زیور تو ظاہری زینت کی چیز ہوئی اور پاک کرنے والا پانی جس سے دلوں کی پاکیزگی اور حسد و بغض کی دوری ہو جائے ۔ یہ تھی باطنی زینت ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس سے مقصود دلوں کی مضبوطی بھی تھی کہ صبرو برداشت پیدا ہو شجاعت و بہادری ہو دل بڑھ جائے ثابت قدمی ظاہر ہو جائے اور حملے میں استقامت پیدا ہو جائے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر اپنی ایک باطنی نعمت کا اظہار فرما رہا ہے تاکہ مسلمان اس پر بھی اللہ کا شکر بجا لائیں کہ اللہ تعالیٰ تبارک و تقدس و تمجد نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم جاؤ مسلمانوں کی مدد و نصرت کرو ، ان کے ساتھ مل کر ہمارے دشمنوں کو نیچا دکھاؤ ۔ ان کی گنتی گھٹاؤ اور ہمارے دوستوں کی تعداد بڑھاؤ ۔ کہا گیا ہے کہ فرشتہ کسی مسلمان کے پاس آتا اور کہتا کہ مشرکوں میں عجیب بد دلی پھیلی ہوئی ہے ۔ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے حملہ کر دیا تو ہمارے قدم نہیں ٹک سکتے ہم تو بھاگ کھڑے ہوں گے ۔ اب ہر ایک دوسرے سے کہتا دوسرا تیسرے سے پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل بڑھ جاتے اور سمجھ لیتے کہ مشرکوں میں طاقت و قوت نہیں ۔ پھر فرماتا ہے «إِذْ یُوحِی رَبٰکَ إِلَی الْمَلَائِکَۃِ أَنِّی مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِینَ آمَنُوا» کہ ’ تم اے فرشتوں اس کام میں لگو ادھر میں مشرکوں کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دوں گا میں ان کے دلوں میں ذلت اور حقارت ڈال دوں گا میرے حکم کے نہ ماننے والوں کا میرے رسول کے منکروں کا یہی حال ہوتا ہے ۔ ‘ پھر تم ان کے سروں پر وار لگا کر دماغ نکال دو ، گردنوں پر تلوار مار کے سر اور دھڑ میں جدائی کر دو ۔ «فَوْقَ الْأَعْنَاقِ» ہاتھ پاؤں اور جوڑ جوڑ پور پور کو تاک تاک کر زخم لگاؤ ۔ پس گردنوں کے اوپر سے بعض کے نزدیک مراد تو سر ہیں اور بعض کے نزدیک خود گردن مراد ہے، چنانچہ اور جگہ ہے آیت «فَإِذا لَقِیتُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنْتُمُوہُمْ فَشُدٰوا الْوَثَاقَ»۱؎ (47-محمد:4) ’ جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اُڑا دو ۔ ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { میں قدرتی عذابوں سے لوگوں کو ہلاک کرنے کیلئے نہیں بھیجا گیا بلکہ گردن مارنے اور قید کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں ۔ }۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15798) امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گردن پر اور سر پر وار کرنے کا استدلال اس سے ہو سکتا ہے ۔ مغازی اموی میں ہے کہ مقتولین بدر کے پاس سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گذرے تو ایک شعر کا ابتدائی ٹکڑا «نُفَلِّقُ ہَامًا . . . » یعنی سر ٹوٹے پڑے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ دیا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پورا شعر پڑھ دیا«مِنْ رِجَالٍ أَعِزَّۃٍ عَلَیْنَا وَہُمْ کَانُوا أَعَقَّ وَأَظْلَمَا» یعنی سر ٹوٹے پڑے ہیں ان لوگو کے جو ہم پر غرور کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ بڑے ہی ظالم اور نافرمان تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ شعر یاد تھے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائق ، جیسے آیت میں ہے «وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنبَغِی لَہُ» ۱؎ ( 36-یس : 69 ) ’ اور ہم نے ان ( پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) کو شعر گوئی نہیں سکھائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ ‘ اس شعر کا مطلب یہی ہے کہ جو لوگ ظالم اور باغی تھے اور آج تک غلبے اور شوکت سے تھے آج ان کے سر ٹوٹے ہوئے اور ان کے دماغ بکھرے ہوئے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جو مشرک لوگ فرشتوں کے ہاتھ قتل ہوئے تھے انہیں مسلمان اس طرح پہچان لیتے تھے کہ ان کی گردنوں کے اوپر اور ہاتھ پیروں کے جوڑ ایسے زخم زدہ تھے جیسے آگ سے جلے ہونے کے نشانات ۔ « وَاضْرِبُوا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ» ’ اے مومنو! دشمنوں کو مارو ان کے جوڑ بندوں پر تاکہ ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائیں۔‘ «بَنَانٍ» جمع ہے « بَنَانَۃً » کی ۔ عربی شعروں میں بَنَانَۃً کا استعمال موجود ہے پس ہر جوڑ اور ہر حصے کو «بَنَانٍ» کہتے ہیں ۔ اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں منہ پر آنکھ پر آگ کے کوڑے برساؤ ہاں جب انہیں گرفتار کر لو پھر نہ مارنا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بدر کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ ابوجہل ملعون نے کہا تھا کہ جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو زندہ گرفتار کر لو تاکہ ہم انہیں اس بات کا مزہ زیادہ دیر تک چکھائیں کہ وہ ہمارے دین کو برا کہتے تھے ، ہمارے دین سے ہٹ گئے تھے ، لات و عزی کی پرستش چھوڑ بیٹھے ٹھے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور فرشتوں کو یہ حکم دیا ۔ چنانچہ جو ستر آدمی ان کافروں کے قتل ہوئے ان میں ایک یہ پاجی بھی تھا اور جو ستر آدمی قید ہوئے ان میں ایک عقبہ بن ابی معیط بھی تھا لعنہ اللہ تعالیٰ ، اس کو قید میں ہی قتل کیا گیا اور اس سمیت مقتولین مشرکین کی تعداد ستر ہی تھی ۔ «ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ شَاقٰوا اللہَ وَرَسُولَہُ» ’ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کا نتیجہ اور بدلہ یہ ہے ۔‘ شقاق ماخوذ ہے شق سے ۔ شق کہتے ہیں پھاڑنے چیرنے اور دو ٹکڑے کرنے کو ۔ پس ان لوگوں نے گویا شریعت ، ایمان اور فرماں برداری کو ایک طرف کیا اور دوسری جانب خود رہے ۔ لکڑی کے پھاڑنے کو بھی عرب یہی کہتے ہیں جبکہ لکڑی کے دو ٹکڑے کر دیں ۔ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف چل کر کوئی بچ نہیں سکا ۔ کون ہے جو اللہ سے چھپ جائے ؟ اور اس کے بےپناہ اور سخت عذابوں سے بچ جائے ؟ نہ کوئی اس کے مقابلے کا نہ کسی کو اس کے عذابوں کی طاقت نہ اس سے کوئی بچ نکلے ۔ نہ اس کا غضب کوئی سہہ سکے ۔ وہ بلند و بالا وہ غالب اور انتقام والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود اور رب نہیں ۔ وہ اپنی ذات میں ، اپنی صفتوں میں یکتا اور لا شریک ہے ۔ «ذَلِکُمْ فَذُوقُوہُ وَأَنَّ لِلْکَافِرِینَ عَذَابَ النَّارِ » ’ اے کافرو ! دنیا کے یہ عذاب اٹھاؤ اور ابھی آخرت میں دوزخ کا عذاب باقی ہے ۔‘