يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
مال غنیمت (ف ٢) کی بابت تجھ سے پوچھتے ہیں تو کہ مال غنیمت اللہ کا اور رسول کا ہے ، سو تم اللہ سے ڈرو اور آپس میں صلح کرو ، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ، اگر مومن ہو ۔
بخاری شریف میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سورۃ الانفال غزوہ بدر کے بارے میں اتری ہے ۔۱؎ (صحیح بخاری:4645) فرماتے ہیں انفال سے مراد غنیمتیں ہیں۔ ۱؎ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الانفال باب:1) جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی تھیں ان میں سے کوئی چیز کسی اور کیلئے نہ تھی ۔ آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا گھوڑا بھی انفال میں سے ہے اور سامان بھی ۔ سائل نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا اس نے پھر پوچھا کہ جس انفال کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ غرض پوچھتے پوچھتے آپ کو تنگ کر دیا تو آپ نے فرمایا اس کا یہ کرتوت اس سے کم نہیں جسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مارا تھا ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:168/6) سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے جب سوال ہوتا تو آپ فرماتے نہ تجھے حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں واللہ حق تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے والا حکم فرمانے والا حلال حرام کی وضاحت کرنے والا ہی بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ نے اس سائل کو جواب دیا کہ کسی کسی کو بطور نفل ( مال غنیمت ) گھوڑا بھی ملتا اور ہتھیار بھی ۔ دو تین دفعہ اس نے یہی سوال کیا جس سے آپ غضبناک ہو گئے اور فرمانے لگے یہ تو ایسا ہی شخص ہے جسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑے لگائے تھے یہاں تک کہ اس کی ایڑیاں اور ٹخنے خون آلود ہو گئے تھے ۔ اس پر سائل کہنے لگا کہ خیر آپ سے تو اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بدلہ لے ہی لیا ۔ الغرض سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک تو یہاں نفل سے مراد پانچویں حصے کے علاوہ وہ انعامی چیزیں ہیں جو امام اپنے سپاہیوں کو عطا فرمائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانچویں حصے کا مسئلہ پوچھا جو چار ایسے ہی حصوں کے بعد رہ جائے ۔ پس یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:168/6) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں لڑائی والے دن اس سے زیادہ امام نہیں دے سکتا بلکہ لڑائی کے شروع سے پہلے اگر چاہے دیدے ۔ عطا فرماتے ہیں کہ یہاں مراد مشرکوں کا وہ مال ہے جو بے لڑے بھڑے مل جائے خواہ جانور ہو خواہ لونڈی غلام یا اسباب ہو پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی تھا آپ کو اختیار تھا کہ جس کام میں چاہیں لگا لیں تو گویا ان کے نزدیک مال فے انفال ہے ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:169/6) یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد لشکر کے کسی رسالے کو بعوض ان کی کارکردگی یا حوصلہ افزائی کے امام انہیں عام تقسیم سے کچھ زیادہ دے اسے انفال کہا جاتا ہے ۔ مسند احمد میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بدر والے دن جب میرے بھائی عمیر قتل کئے گئے میں نے سعید بن العاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار لے لی جسے ذوالکتیعہ کہا جاتا تھا سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ اسے باقی مال کے ساتھ رکھ آؤ ۔ } میں نے حکم کی تعمیل تو کر لی لیکن اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس وقت میرے دل پر کیا گذری ۔ ایک طرف بھائی کے قتل کا صدمہ دوسری طرف اپنا حاصل کردہ سامان واپس ہونے کا صدمہ ۔ ابھی میں چند قدم ہی چلا ہوں گا جو سورۃ الانفال نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : { جاؤ اور وہ تلوار جو تم ڈال آئے ہو لے جاؤ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:180/1:حسن لغیرہ) مسند میں سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکوں سے بچا لیا اب آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئیے آپ نے فرمایا : { سنو نہ یہ تمہاری ہے نہ میری ہے ۔ اسے بیت المال میں داخل کر دو } ،میں نے رکھ دی اور میرے دل میں خیال آیا کہ آج جس نے مجھ جیسی محنت نہیں کی اسے یہ انعام مل جائے گا یہ کہتا ہوا جا ہی رہا تھا جو آواز آئی کہ کوئی میرا نام لے کر میرے پیچھے سے مجھے پکار رہا ہے لوٹا اور پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی اس وقت وہ میری نہ تھی اب وہ مجھے دے دی گئی اور میں تمہیں دے رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ہے۔ } } ۱؎ (سنن ابوداود:2740،قال الشیخ الألبانی:حسن) پس آیت « یَسْــــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلہِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ ۠ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مٰؤْمِنِیْنَ» ۱؎ (8-الأنفال:1) ، اس بارے میں اتری ہے جو ابوداؤد طیالسی میں انہی سے مروی ہے کہ { میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں ۔ مجھے بدر والے دن ایک تلوار ملی میں اسے لے کر سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ تلوار آپ مجھے عنایت فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جاؤ جہاں سے لی ہے وہیں رکھ دو } ۔ میں نے پھر طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا ۔ میں نے پھر مانگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا ۔ اسی وقت یہ آیت اتری ۔} یہ پوری حدیث ہم نے آیت « وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْـنًا ۭ وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا ۭ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ » ۱؎ ( 29- العنکبوت : 8 ) ، کی تفسیر میں وارد کی ہے ۔ پس ایک تو یہ آیت دوسری آیت «یٰٓاَیٰھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ» ۱؎ ( 5- المآئدہ : 90 ) ، چوتھی آیت وصیت۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1748) سیرت ابن اسحاق میں ہے ابوسعید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں مجھے سیف بن عاند کی تلوار ملی جسے مرزبان کہا جاتا تھا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو وہ جمع کرا دے ، میں بھی گیا اور وہ تلوار رکھ آیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگتا تو آپ انکار نہ کرتے ۔ ارقم بن ارقم خزاعی رضی اللہ عنہ نے اس تلوار کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کا سوال کیا آپ نے انہیں عطا فرما دی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15672) اس آیت کے نزول کا سبب مسند امام احمد میں ہے کہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے عبادہ رضی اللہ عنہ سے انفال کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا ہم بدریوں کے بارے میں ہے جبکہ ہم مال کفار کے بارے میں باہم اختلاف کرنے لگے اور جھگڑے بڑھ گئے تو یہ آیت اتری اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کو برابری سے تقسیم فرمایا ۔۱؎ (مسند احمد:319/5:حسن لغیرہ) مسند احمد میں ہے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوۂ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔۱؎ (مسند احمد:324/5:حسن لغیرہ) ہم غزوہ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دے دی ہماری ایک جماعت نے تو ان کا تعاقب کیا کہ پوری ہزیمت دیدے دوسری جماعت نے مال غنیمت میدان جنگ سے سمیٹنا شروع کیا اور ایک جماعت اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد کھڑی ہو گئی کہ کہیں کوئی دشمن آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچائے ۔ رات کو سب لوگ جمع ہوئے اور ہر جماعت اپنا حق اس مال پر جتانے لگی ۔ پہلی جماعت نے کہا دشمنوں کو ہم نے ہی ہرایا ہے ۔ دوسری جماعت نے کہا مال غنیمت ہمارا ہی سمیٹا ہوا ہے ۔ تیسری جماعت نے کہا ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیداری کی ہے پس یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس مال کو ہم میں تقسیم فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ حملے کی موجودگی میں چوتھائی بانٹتے اور لوٹتے وقت تہائی آپ انفال کو مکروہ سمجھتے ۔۱؎ (سنن ترمذی:1561،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن مردویہ میں ہے کہ بدر والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ { جو ایسا کرے اسے یہ انعام اور جو ایسا کرے اسے یہ انعام ۔ } اب نوجوان تو دوڑ پڑے اور کار نمایاں انجام دیئے ۔ بوڑھوں نے مورچے تھامے اور جھنڈوں تلے رہے ۔ اب جوانوں کا مطالبہ تھا کہ کل مال ہمیں ملنا چاہیئے بوڑھے کہتے تھے کہ لشکر گاہ کو ہم نے محفوظ رکھا تم اگر شکست اٹھاتے تو یہیں آتے ۔ اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری ۔۱؎ (سنن ابوداود:2737،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہو گیا تھا کہ { جو کسی کافر کو قتل کرے اسے اتنا ملے گا اور جو کسی کافر کو قید کرے اسے اتنا ملے گا ۔} ابوالیسر رضی اللہ عنہ دو قیدی پکڑ لائے اور رسول اللہ ﷺ کو وعدہ یاد دلایا اس پر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر تو ہم سب یونہی رہ جائیں گے ۔ بزدلی یا بے طاقتی کی وجہ سے ہم آگے نہ بڑھے ہوں یہ بات نہیں بلکہ اس لیے کہ پچھلی جانب سے کفار نہ آ پڑیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اس لیے ہم آپ کے اردگرد رہے ، اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری اور آیت «وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ۙ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ۱؎ ( 8- الانفال : 41 ) ، بھی اتری۔ امام ابو عبیداللہ قاسم بن سلام نے اپنی کتاب احوال الشرعیہ میں لکھا ہے کہ انفال غنیمت ہے اور حربی کافروں کے جو مال مسلمانوں کے قبضے میں آئیں وہ سب ہیں پس انفال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں تھے بدر والے دن بغیر پانچواں حصہ نکالے جس طرح اللہ نے آپ کو سمجھایا آپ نے مجادین میں تقسیم کیا اس کے بعد پانچواں حصہ نکالنے کے حکم کی آیت اتری ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:0000،۔) اور یہ پہلا حکم منسوخ ہو گیا لیکن ابن زید وغیرہ اسے منسوخ نہیں بتلاتے بلکہ محکم کہتے ہیں ۔ انفال غنیمت کی جمع ہے مگر اس میں سے پانجواں حصہ مخصوص ہے ۔ اس کی اہل کیلئے جیسے کہ کتاب اللہ میں حکم ہے اور جیسے کہ سنت رسول اللہ جاری ہوئی ہے ۔ انفال کے معنی کلام عرب میں ہر اس احسان کے ہیں جسے کوئی بغیر کسی پابندی یا وجہ کے دوسرے کے ساتھ کرے ۔ پہلے کی تمام امتوں پر یہ مال حرام تھے اس امت پر اللہ نے رحم فرمایا اور مال غنیمت ان کے لیے حلال کیا ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں پھر ان کے ذکر میں ایک یہ ہے کہ آپ نے فرمایا میرے لیے غنیمتیں حلال کی گئیں مجھ سے پہلے کسی کو حلال نہ تھیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:335) امام ابو عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام جن لشکریوں کو کوئی انعام دے جو اس کے مقررہ حصہ کے علاوہ ہو اسے نفل کہتے ہیں غنیمت کے انداز اور اس کے کارنامے کے صلے کے برابر یہ ملتا ہے ۔ اس نفل کی چار صورتیں ہیں ایک تو مقتول کا مال اسباب وغیرہ جس میں سے پانچواں حصہ نہیں نکالا جاتا ۔ دوسرے وہ نفل جو پانچواں حصہ علیحدہ کرنے کے بعد دیا جاتا ہے ۔ مثلاً امام نے کوئی چھوٹا سا لشکر کسی دشمن پر بھیج دیا وہ غنیمت یا مال لے کر پلٹا تو امام اس میں سے اسے چوتھائی یا تہائی بانٹ دے تیسرے صورت یہ کہ جو پانچواں حصہ نکال کر باقی کا تقسیم ہو چکا ہے ، اب امام بقدر خزانہ اور بقدر شخصی جرات کے اس میں سے جسے جتنا چاہے دے ۔ چوتھی صورت یہ کہ امام پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے ہی کسی کو کچھ دے مثلاً چرواہوں کو ، سائیسوں کو ، بہشتیوں کو وغیرہ ۔ پھر ہر صورت میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے جو سامان اسباب مقتولین کا مجاہدین کو دیا جائے وہ انفال میں داخل ہے ، دوسری وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا حصہ پانچویں حصے میں سے پانچواں جو تھا اس میں سے آپ جسے جاہیں جتنا چاہیں عطا فرمائیں یہ نفل ہے ۔ پس امام کو چاہیئے کہ دشمنوں کی کثرت مسلمانوں کی قلت اور ایسے ہی ضروری وقتوں میں اس سنت کی تابعیداری کرے ۔ ہاں جب ایسا موقع نہ ہو تو نفل ضروری نہیں ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ امام ایک چھوٹی سی جماعت کہیں بھیجتا ہے اور ان سے کہدیتا ہے کہ جو شخص جو کچھ حاصل کرے پانچواں حصہ نکال کر باقی سب اسی کا ہے تو وہ سب انہی کا ہے کیونکہ انہوں نے اسی شرط پر غزوہ کیا ہے اور یہ رضا مندی سے طے ہو چکی ہے ۔ لیکن ان کے اس بیان میں جو کہا گیا ہے کہ بدر کی غنیمت کا پانچواں حصہ نہیں نکالا گیا ۔ اس میں ذرا کلام ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ دو اونٹنیاں وہ ہیں جو انہیں بدر کے دن پانچویں حصے میں ملی تھیں میں نے اس کا پورا بیان کتاب السیرہ میں کر دیا ہے ۔«فالْحَمْدُ لِلّٰہ»۔ قولہ تعالیٰ «یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلہِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللہَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ» ’ تم اپنے کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو ، آپس میں صلح و صفائی رکھو ، ظلم ، جھگڑے اور مخالفت سے باز آ جاؤ ۔ جو ہدایت و علم اللہ کی طرف سے تمہیں ملا ہے اس کی قدر کرو ۔ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو ، عدل و انصاف سے ان مالوں کو تقسیم کرو ۔ پرہیزگاری اور صلاحیت اپنے اندر پیدا کرو ‘ ۔ سدی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ «وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ» کے معنی ہیں کہ آپس میں لڑو جھگرو نہیں اور گالی گلوچ نہ بکو۔ مسند ابویعلیٰ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ مسکرائے اور پھر ہنس دیئے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں ، کیسے ہنس دیئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میری امت کے دو شخص اللہ رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے ایک نے کہا اللہ میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے اللہ نے اس سے فرمایا ٹھیک ہے اسے بدلہ دے اس نے کہا اللہ میرے پاس تو نیکیاں اب باقی نہیں رہیں اس نے کہا پھر اللہ میری برائیاں اس پر لا دھ دے ۔} اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے { وہ دن بڑا ہی سخت ہے لوگ چاہتے ہوں گے تلاش میں ہوں گے کہ کسی پر ان کا بوجھ لادھ دیا جائے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے طالب اپنی نگاہ اٹھا اور ان جنتیوں کو دیکھ وہ دیکھے گا اور کہے گا چاندی کے قلعے اور سونے کے محل میں دیکھ رہا ہوں جو لؤ لؤ اور موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہیں پروردگار مجھے بتایا جائے کہ یہ مکانات اور یہ درجے کسی نبی کے ہیں یا کسی صدیق کے یا کسی شہید کے ؟ اللہ فرمائے گا یہ اس کے ہیں جو ان کی قیمت ادا کر دے ۔ وہ کہے گا اللہ کس سے ان کی قیمت ادا ہو سکے گی ؟ فرمائے گا تیرے پاس تو اس کی قیمت ہے وہ خوش ہو کر پوچھے گا کہ پروردگار کیا ؟ اللہ فرمائے گا یہی کہ تیرا جو حق اس مسلمان پر ہے تو اسے معاف کر دے ، بہت جلد کہے گا کہ اللہ میں نے معاف کیا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو گا کہ اب اس کا ہاتھ تھام لے اور تم دونوں جنت میں چلے جاؤ۔ } پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا آخری حصہ تلاوت فرمایا کہ { اللہ سے ڈرو اور آپس کی اصلاح کرو دیکھو اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن مومنوں میں صلح کرائے گا ۔}۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:0000،۔)