قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
تو کہہ میں اپنی جان کے بھلے یا برے کا مالک نہیں ہوں ‘ لیکن جو کچھ اللہ چاہے ‘ اور اگر میں (ف ٢) ۔ غیب کی بات جانتا ، تو بہت سی خوبیاں جمع کرلیتا ، اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچتی ، میں تو مومنوں کو صرف ڈرانے اور خوشی سنانے والا ہوں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں تھا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ تمام کام اللہ کے سپرد کریں اور صاف کہہ دیں کہ غیب کی کسی بات کا مجھے علم نہیں ، میں تو صرف وہ جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے معلوم کرا دے ۔ جیسے سورۃ الجن میں ہے کہ «عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلَیٰ غَیْبِہِ أَحَدًا» ۱؎ (72-الجن:26) ’ عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہی ہے ، وہ اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا ۔ ‘ مجھے اگر غیب کی اطلاع ہوتی تو میں اپنے لیے بہت سی بھلائیاں سمیٹ لیتا ۔ مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ” اگر مجھے اپنی موت کا علم ہوتا تو نیکیوں میں بھی سبقت لے جاتا ۔ “ لیکن یہ قول غور طلب ہے کیونکہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال دائمی تھے ، جو نیکی ایک بار کرتے ، پھر اسے معمول بنا لیتے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1987) ساری زندگی اور زندگی کا ہر ایک دن بلکہ ہر ایک گھڑی ایک ہی طرح کی تھی ۔ گویا کہ آپ کی نگاہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف لگتی رہتی تھیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات یوں ہو سکتی ہے کہ دوسروں کو میں ان کی موت کے وقت سے خبردار کر کے انہیں اعمال نیک کی رغبت دلاتا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس سے زیادہ اچھا قول اس کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے کہ ” میں مال جمع کر لیتا ، مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس چیز کے خریدنے میں نفع ہے ، میں اسے خرید لیتا ۔ جانتا کہ اس کی خریداری میں نقصان ہے ، نہ خریدتا ۔ خشک سالی کے لیے ترسالی میں ذخیرہ جمع کر لیتا ، ازرانی کے وقت گرانی کے علم سے سودا جمع کر لیتا ۔ کبھی کوئی برائی مجھے نہ پہنچتی کیونکہ میں علم غیب سے جان لیتا کہ یہ برائی ہے تو میں پہلے سے ہی اس سے جتن کر لیتا ۔ لیکن میں علم غیب نہیں جانتا ۔ اس لیے فقیری بھی مجھ پر آتی ہے ، تکلیف بھی ہوتی ہے ۔ مجھ میں تم یہ وصف نہ مانو ۔ سنو ! مجھ میں وصف یہ ہے کہ میں برے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتا ہوں ، ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری سناتا ہوں ۔ “ جیسے کہ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں «فَإِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِینَ وَتُنذِرَ بِہِ قَوْمًا لٰدًّا» ۱؎ (19-مریم:97) ’ ہم نے اسے تیری زبان پر آسان کر دیا ہے کہ تو پرہیزگاروں کو خوشخبری سنا دے اور بروں کو ڈرا دے ۔ ‘