وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ
اور ہمارے لئے اس دنیا اور آخرت میں بھلائی لکھ دے ہم تیری طرف رجوع ہوئے ، فرمایا میرا عذاب اسی پر آتا ہے جسے میں عذاب دیا چاہتا ہوں ، اور میری رحمت ہر شئے کو شامل ہے ، سو اب میں اپنی رحمت عامہ کو خاص انکے حق میں لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوۃ دیتے اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں (ف ١) ۔
اللہ تعالٰی کی رحمت اور انسان چونکہ کلیم اللہ علیہ السلام نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ یہ محض تیری طرف سے آزمائش ہے ۔ اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ عذاب تو صرف گنہگاروں کو ہی ہوتا ہے اور گنہگاروں میں سے بھی انہی کو جو میری نگاہ میں گنہگار ہیں ، نہ کہ ہر گنہگار کو ۔ میں اپنی حکمت ، عدل اور پورے علم کے ذریعے سے جانتا ہوں کہ مستحق عذاب کون ہے ؟ صرف اسی کو عذاب پہنچاتا ہوں ۔ ہاں البتہ میری رحمت بڑی وسیع چیز ہے جو سب کو شامل ، سب پر حاوی اور سب پر محیط ہے ۔ چنانچہ عرش کے اٹھانے والے اور اس کے اردگرد رہنے والے فرشتے فرماتے رہتے ہیں کہ اے رب ! تو نے اپنی رحمت اور اپنے علم سے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے کہ { ایک اعرابی آیا ۔ اونٹ بٹھا کر ، اسے باندھ کر نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا ۔ نماز سے فارغ ہو کر اونٹ کو کھول کر اس پر سوار ہو کر اونچی آواز سے دعا کرنے لگا کہ اے اللہ ! مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور اپنی رحمت میں کسی اور کو ہم دونوں کا شریک نہ کر ۔ آپ یہ سن کر فرمانے لگے : بتاؤ یہ خود راہ گم کردہ ہونے میں بڑھا ہوا ہے یا اس کا اونٹ ؟ تم نے سنا بھی ، اس نے کیا کہا ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : ہاں ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سن لیا ۔ آپ نے فرمایا : اے شخص ! تو نے اللہ کی بہت ہی کشادہ رحمت کو بہت تنگ چیز سمجھ لیا ۔ سن ! اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے صرف ایک حصہ مخلوق میں اتارا جو تمام مخلوق میں تقسیم ہوا یعنی انسان ، حیوان ، جنات سب میں اور ننانوے حصے اپنے لیے باقی رکھے ۔ لوگو ! بتاؤ یہ زیادہ راہ بہکا ہوا ہے یا اس کا اونٹ ؟ } ۱؎ (مسند احمد:312/4:ضعیف) مسند کی اور حدیث میں ہے : { اللہ عز و جل نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے صرف ایک ہی حصہ دنیا میں اتارا ۔ اسی سے مخلوق ایک دوسرے پر ترس کھاتی ہے اور رحم کرتی ہے ، اسی سے حیوان بھی اپنی اولاد کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ کرتے ہیں ۔ باقی کے ننانوے حصے تو اس کے پاس ہی ہیں جن کا اظہار قیامت کے دن ہو گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2753) اور روایت میں ہے کہ { بروز قیامت اسی حصے کے ساتھ اور ننانوے حصے جو مؤخر ہیں ، ملا دیئے جایں گے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2742) ایک اور روایت میں ہے کہ { اسی نازل کردہ ایک حصے میں پرند بھی شریک ہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4294 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) طبری میں ہے : { قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو اپنے دین میں فاجر ہے ، جو اپنی معاش میں احمق ہے وہ بھی اس میں داخل ہے ۔ اس کی قسم جو میری جان اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے ! وہ بھی جنت میں جائے گا جو مستحق جہنم ہو گا ۔ اس کی قسم جس کے قبضے میں میری روح ہے ! قیامت کے دن اللہ کی رحمت کے کرشمے دیکھ کر ابلیس بھی امیدوار ہو کر ہاتھ پھیلا دے گا ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:3022:ضعیف) یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کا راوی سعد غیر معروف ہے ۔ پس میں اپنی اس رحمت کو ان کے لیے واجب کر دوں گا اور یہ بھی محض اپنے فضل و کرم سے ۔ جیسے فرمان ہے : ’ تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت کو واجب کر لیا ہے ۔ ‘ ۱؎ (6-الأنعام:12) پس جن پر رحمت رب واجب ہو جائے گی ، ان کے جو اوصاف بیان فرمائے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو تقویٰ کریں یعنی شرک سے اور کبیرہ گناہوں سے بچیں ، زکوٰۃ دیں یعنی اپنے ضمیر کو پاک رکھیں اور مال کی زکوٰۃ بھی ادا کریں ۔ [ کیونکہ یہ آیت مکی ہے ] اور ہماری آیتوں کو مان لیں ، ان پر ایمان لائیں اور انہیں سچ سمجھیں ۔