وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ
اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنایا ، وہ ایک جسم تھا گائے کی طرح آواز کرتا تھا ، کیا انہوں نے یہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے اور نہ انہیں ہدایت کرسکتا ، اسے قبول کرلیا ، اور ظالم ہوگئے (ف ١) ۔
بنی اسرائیل کا بچھڑے کو پوجنا موسیٰ علیہ السلام تو اللہ کے وعدے کے مطابق تورات لینے گئے ، ادھر فرعونیوں کے جو زیور بنی اسرائیل کے پاس رہ گئے تھے ، سامری نے انہیں جمع کیا اور اپنے پاس سے اس میں خاک کی مٹھی ڈال دی جو جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کی ٹاپ تلے سے اس نے اٹھالی تھی ۔ اللہ کی قدرت سے وہ سونا گل کر مثل ایک گائے کے جسم کے ہو گیا اور چونکہ کھوکھلا تھا ، اس میں سے آواز بھی آنے لگی اور وہ بالکل ہو بہو گائے کی سی آواز تھی ۔ اس نے بنی اسرائیل کو بہکا کر اس کی عبادت کرانی شروع کر دی ، بہت سے لوگ اسے پوجنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے طور پر موسیٰ علیہ السلام کو اس فتنے کی خبر دی ۔ یہ بچھڑا یا تو سچ مچ خون گوشت کا بن گیا تھا یا سونے کا ہی تھا مگر شکل گائے کی تھی ، یہ اللہ ہی جانے ۔ بنی اسرائیل تو آواز سنتے ہی ناچنے لگے اور اس پر ریجھ گئے ۔ سامری نے کہہ دیا کہ اللہ تو یہی ہے ، موسیٰ علیہ السلام بھول گئے ہیں ۔ انہیں اتنی بھی تمیز نہ آئی کہ وہ اللہ تو کسی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور کسی نفع نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتا ۔ اس بچھڑے کو اس اللہ کو چھوڑ کر پوجو جو سب کا مالک اور سب کا خالق ہے ۔ اس کی وجہ سوائے اندھے پن اور بےعقلی کے اور کیا ہو سکتی ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا : { کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا ، بہرا کر دیتی ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:194/5:ضعیف) پھر جب اس محبت میں کمی آئی ، آنکھیں کھلیں تو اپنے اس فعل پر نادم ہونے لگے اور یقین کر لیا کہ واقعی ہم گمراہ ہو گئے تو اللہ سے بخشش مانگنے لگے ۔ ایک قرأت میں «تَغْفِرْ» ” ت “ سے بھی ہے ۔ جان گئے کہ اگر معافی نہ ملی تو بڑے نقصان سے دو چار ہو جائیں گے ۔ غرض اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے جھکے اور التجا کرنے لگے ۔