سورة الاعراف - آیت 101

تِلْكَ الْقُرَىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَائِهَا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یہ بستیاں ہیں جن کی خبریں ہم نے تجھے سنائیں ، اور ان کے رسول ان کے پاس معجزات لے کر آئے تھے ، سو جس بات کی وہ پہلے تکذیب کرچکے ، اس پر ایمان ہی نہ لائے ، یوں اللہ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

عہد شکن لوگوں کی طے شدہ سزا پہلے قوم نوح ، ہود ، صالح ، لوط اور قوم شعیب کا بیان گزر چکا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سب کے پاس ہمارے رسول حق لے کر پہنچے ، معجزے دکھائے ، سمجھایا ، بجھایا ، دلیلیں دیں لیکن وہ نہ مانے اور اپنی بد عادتوں سے باز نہ آئے ۔ جس کی پاداش میں ہلاک ہو گئے ۔ صرف ماننے والے بچ گئے ۔ اللہ کا طریقہ اسی طرح جاری ہے کہ ’ جب تک رسول نہ آ جائیں ، خبردار نہ کر دیئے جائیں ، عذاب نہیں کئے جاتے ۔ ‘ ۱؎ (17-الإسراء:15) ہم ظالم نہیں لیکن جبکہ لوگ خود ظلم پر کمر کس لیں تو پھر ہمارے عذاب انہیں آ پکڑتے ہیں ۔ ان سب نے جن چیزوں کا انکار کر دیا تھا ، ان پر باوجود دلیلیں دیکھ لینے کے بھی ایمان نہ لائے ۔ آیت «بِمَا کَذَّبُوا» میں «ب» سببیہ ہے ۔ جیسے ساتویں پارے کے آخر میں فرمایا ہے کہ ’ تم کیا جانو ؟ یہ لوگ تو معجزے آنے پر بھی ایمان نہ لائیں گے ۔ ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے ۔ جیسے کہ یہ اس قرآن پر پہلی بار ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیں گے ۔ ‘ ۱؎ (6-الأنعام:109-110) یہاں بھی فرمان ہے کہ کفار کے دلوں پر اسی طرح ہم مہر لگا دیا کرتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر بدعہد ہیں بلکہ عموماً فاسق ہیں ۔ یہ عہد وہ ہے جو روز ازل میں لیا گیا تھا اور اسی پر پیدا کئے گئے ۔ اسی فطرت اور جبلت میں رکھا گیا ، اسی کی تاکید انبیاء علیہم السلام کرتے رہے ۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا یا مطلق پرواہ نہ کی اور اس عہد کے خلاف غیر اللہ کی پرستش شروع کر دی ۔ اللہ کو مالک ، خالق اور لائق عبادت مان کر آئے تھے لیکن یہاں اس کے سراسر خلاف کرنے لگے اور بےدلیل ، خلاف عقل و نقل ، خلاف فطرت اور خلاف شرع ، اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت میں لگ گئے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے اپنے بندوں کو موحد اور یکطرفہ پیدا کیا لیکن شیطان نے آ کر انہیں بہکا دیا اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2865) بخاری و مسلم میں ہے : { ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اسے اس کے ماں باپ یہودی ، نصرانی ، مجوسی بنا لیتے ہیں الخ ۔ } (صحیح بخاری:4775) خود قرآن کریم میں ہے : ’ ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے تھے ، سب کی طرف یہی وحی کی تھی کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ اے دنیا کے لوگو ! تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو ۔ ‘ ۱؎ (21-الأنبیاء:25) اور آیت میں ہے : ’ اپنے سے پہلے کے رسولوں سے دریافت کر لو کہ کیا ہم نے اپنے سوا اور معبود ان کے لیے مقرر کئے تھے ؟ ‘ ۱؎ (43-الزخرف:45) اور فرمان ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ» ۱؎ (16-النحل:36) ’ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو ! صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو ۔ ‘ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ اس جملے کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چونکہ پہلے ہی سے اللہ کے علم میں یہ بات مقرر ہو گئی تھی کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا ۔ یہی ہو کر رہا کہ باوجود دلائل سامنے آ جانے کے ، ایمان نہ لائے ۔ میثاق والے دن گو یہ ایمان قبول کر بیٹھے لیکن ان کے دلوں کی حالت اللہ جل شانہ کو معلوم تھی کہ ان کا ایمان جبراً اور ناخوشی سے ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ یہ اگر دوبارہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تو پھر بھی وہی کام نئے سرے سے کرنے لگیں گے جن سے انہیں روکا گیا ہے ۔ ‘ (6-الأنعام:28)