سورة الاعراف - آیت 57

وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۚ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور وہی ہے کہ اپنی رحمت کے آگے خوشخبری دینے کی ہوائیں بھیجا کرتا ہے ‘ یہاں تک کہ جب وہ پانی کے بھاری بادل اٹھا لاتی ہیں تو ہم اس بادل کو مردہ شہر کی طرف ہانک دیتے ہیں اور اس سے پانی برساتے ہیں ‘ اور اس سے ہر قسم کا میوہ نکالتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو نکالیں گے ، شاید تم نصیحت پکڑو (ف ٢) ۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

تمام مظاہر قدرت اس کی شان کے مظہر ہیں اوپر بیان ہوا کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے ۔ سب پر قبضہ رکھنے والا ، حاکم ، تدبیر کرنے والا ، مطیع اور فرمانبردار رکھنے والا اللہ ہی ہے ۔ پھر دعائیں کرنے کا حکم دیا کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اب یہاں بیان ہو رہا ہے کہ رزاق بھی وہی ہے اور قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر دینے والا بھی وہی ہے ۔ پس فرمایا کہ بارش سے پہلے بھینی بھینی خوش گوار ہوائیں وہی چلاتا ہے ۔ «بُشْرًا» کی دوسری قرأت «مُـبَـشِّـَراتٍ» بھی ہے ۔ رحمت سے مراد یہاں بارش ہے ۔ جیسے فرمان ہے «وَہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ وَہُوَ الْوَلِیٰ الْحَمِیْدُ» ۱؎ (42-الشوری:28) ’ وہ ہے جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد بارش اتارتا ہے اور اپنی رحمت کی ریل پیل کر دیتا ہے ۔ وہ والی ہے اور قابل تعریف ۔ ‘ ایک اور آیت میں ہے : ’ رحمت رب کے آثار دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو وہ جلا دیتا ہے ، وہی مردہ انسانوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ ‘ ۱؎ (30-الروم:50) بادل جو پانی کی وجہ سے بوجھل ہو رہے ہیں ، انہیں یہ ہوائیں اٹھالے چلتی ہیں ۔ یہ زمین سے بہت قریب ہوتے ہیں اور سیاہ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ زید بن عمرو بن نفیل رحمہ اللہ کے شعروں میں ہے : میں اس کا مطیع ہوں جس کے اطاعت گزار میٹھے اور صاف پانی کے بھرے ہوئے بادل ہیں اور جس کے تابع فرمان بھاری بوجھل پہاڑوں والی زمین ہے ۔ پھر ہم ان بادلوں کو مردہ زمین کی طرف لے چلتے ہیں جس میں کوئی سبزہ نہیں ، خشک اور بنجر ہے ۔ جیسے آیت «وَآیَۃٌ لَّہُمُ الْأَرْضُ الْمَیْتَۃُ أَحْیَیْنَاہَا وَأَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَأْکُلُونَ» ۱؎ (36-یس:33) میں بیان ہوا ہے ۔ پھر اس سے پانی برسا کر اسی غیر آباد زمین کو سرسبز بنا دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہم مردوں کو زندہ کر دیں گے ۔ حالانکہ وہ بوسیدہ ہڈیاں اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل گئے ہوں گے ۔ قیامت کے دن ان پر اللہ عزوجل بارش برسائے گا ، چالیس دن تک برابر برستی رہے گی جس سے جسم قبروں میں اگنے لگیں گے جیسے دانہ زمین پر اگتا ہے ۔ یہ بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے ۔ قیامت کی مثال بارش کی پیداوار سے دی جاتی ہے ۔ پھر فرمایا : یہ تمہاری نصیحت کے لیے ہے ۔ اچھی زمین میں سے پیداوار عمدہ بھی نکلتی ہے اور جلدی بھی ۔ جیسے فرمان ہے «فَتَقَبَّلَہَا رَبٰہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا» ۱؎ (3-آل عمران:37) اور جو زمین خراب ہے جیسے سنگلاخ زمین ، شور زمین وغیرہ ، اس کی پیداوار بھی ویسی ہی ہوتی ہے ۔ یہی مثال مومن و کافر کی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { جس علم و ہدایت کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے زمین پر بہت زیادہ بارش ہوئی ۔ زمین کے ایک صاف عمدہ ٹکڑے نے تو پانی قبول کیا ، گھاس اور چارہ بہت سا اس میں سے نکلا ۔ ان میں بعض ٹکڑے ایسے بھی تھے جن میں پانی جمع ہو گیا اور وہاں رک گیا ۔ پس اس سے بھی لوگوں نے فائدہ اٹھایا ، پیا اور پلایا ۔ کھیتیاں ، باغات تازہ کئے ، زمین کے جو چٹیل سنگلاخ ٹکڑے تھے ، ان پر بھی وہ پانی برسا لیکن نہ تو وہاں رکا ، نہ وہاں کچھ اگا ۔ یہی مثال اس کی ہے جس نے دین کی سمجھ پیدا کی اور میری بعثت سے اس نے فائدہ اٹھایا ، خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے سر ہی نہ اٹھایا اور اللہ کی وہ ہدایت ہی نہ کی جو میری معرفت بھیجی گئی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:79) [ مسلم و نسائی ]