ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اپنے رب کو گڑگڑاتے اور چپکے پکارو ، حد سے بڑھنے والے اسے پسند (ف ٢) ۔ نہیں آتے ۔
انسان دعا مانگے قبول ہو گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعا کی ہدایت کرتا ہے جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے ۔ فرماتا ہے کہ اپنے پروردگار کو عاجزی ، مسکینی اور آہستگی سے پکارو ۔ جیسے فرمان ہے «وَاذْکُر رَّبَّکَ فِی نَفْسِکَ تَضَرٰعًا وَخِیفَۃً وَدُونَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَکُن مِّنَ الْغَافِلِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:205) ’ اپنے رب کو اپنے نفس میں یاد کر ۔ ‘ بخاری و مسلم میں { سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے دعا میں اپنی آوازیں بہت بلند کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو ! اپنی جانوں پر رحم کرو ۔ تم کسی بہرے کو یا غائب کو نہیں پکار رہے ۔ جسے تم پکار رہے ہو ، وہ بہت سننے والا اور بہت نزدیک ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2992) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ پوشیدگی مراد ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” «تَضَرٰعًا» کے معنی ذلت مسکینی اور اطاعت گزاری کے ہیں اور «خُفْیَۃً» کے معنی دلوں کے خشوع خضوع سے ، یقین کی صحت سے ، اس کی وحدانیت اور ربوبیت کا ، اس کے اور اپنے درمیان یقین رکھتے ہوئے پکارو ۔ نہ کہ ریا کاری کے ساتھ ، بہت بلند آواز سے ۔ “ حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ لوگ حافظ قرآن ہوتے تھے اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا ، لوگ بڑے فقیہہ ہو جاتے تھے اور کوئی جانتا بھی نہ تھا ۔ لوگ لمبی لمبی نمازیں اپنے گھروں میں پڑھتے تھے اور مہمانوں کو بھی پتہ نہ چلتا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جہاں تک ان کے بس میں ہوتا تھا ، اپنی کسی نیکی کو لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے ۔ پوری کوشش سے دعائیں کرتے تھے لیکن اس طرح جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو ۔ یہ نہیں کہ چیخیں چلائیں ۔ یہی فرمان رب ہے کہ اپنے رب کو عاجزی اور آہستگی سے پکارو ۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نیک بندے کا ذکر کیا جس سے وہ خوش تھا کہ اس نے اپنے رب کو خفیہ طور پر پکارا ۔ امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” دعا میں بلند آواز ، ندا اور چیخنے کو مکروہ سمجھا جاتا تھا بلکہ گریہ وزاری اور آہستگی کا حکم دیا جاتا تھا ۔ “ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” دعا وغیرہ میں حد سے گزر جانے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا ۔ “ ابومجاز رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” مثلاً اپنے لیے نبی بن جانے کی دعا کرنا وغیرہ ۔ “ { سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے سنا کہ ان کا لڑکا اپنی دعا میں کہہ رہا ہے کہ اے اللہ ! میں تجھ سے جنت اور اس کی نعمتیں اور اس کے ریشم و حریر وغیرہ وغیرہ طلب کرتا ہوں اور جہنم سے ، اس کی زنجیروں اور اس کے طوق وغیرہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ تو آپ نے فرمایا : تو نے اللہ سے بہت سی بھلائیاں طلب کیں اور بہت سی برائیوں سے پناہ چاہی ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے کہ عنقریب کچھ لوگ ہوں گے جو دعا میں حد سے گزر جایا کریں گے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:172/1-183:حسن لغیرہ) ایک سند سے مروی ہے کہ { وہ دعا مانگنے میں اور وضو کرنے میں حد سے نکل جائیں گے ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا : تجھے اپنی دعا میں یہی کہنا کافی ہے کہ اے اللہ ! میں تجھ سے جنت اور جنت سے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق طلب کرتا ہوں اور جہنم اور اس سے نزدیک کرنے والے قول و فعل سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:1480 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) [ ابوداؤد ] ابن ماجہ وغیرہ میں ہے : { ان کے صاحبزادے اپنی دعا میں کہہ رہے تھے کہ یااللہ ! جنت میں داخل ہونے کے بعد جنت کی دائیں جانب کا سفید رنگ کا عالیشان محل میں تجھ سے طلب کرتا ہوں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:96 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر زمین پر امن و امان کے بعد فساد کرنے کو منع فرما رہا ہے کیونکہ اس وقت کا فساد خصوصیت سے زیادہ برائیاں پیدا کرتا ہے ۔ پس اللہ اسے حرام قرار دیتا ہے اور اپنی عبادت کرنے کا ، دعا کرنے کا ، مسکینی اور عاجزی کرنے کا حکم دیتا ہے کہ اللہ کو اس کے عذابوں سے ڈر کر اور اس کی نعمتوں کے امیدوار بن کر پکارو ۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے سروں پر منڈلا رہی ہے ۔ جو اس کے احکام بجا لاتے ہیں ، اس کے منع کردہ کاموں سے باز رہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا «وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:156) ’ یوں تو میری رحمت تمام چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے لیکن میں اسے مخصوص کر دوں گا پرہیزگار لوگوں کے لیے ۔ ‘ چونکہ رحمت ثواب کی ضامن ہوتی ہے ، اس لیے «قَرِیْبٌ» کہا ، «قَرِیْبَۃٌ» نہ کہا یا اس لیے کہ وہ اللہ کی طرف مضاف ہے ۔ انہوں نے اللہ کے وعدوں کا سہارا لیا ۔ اللہ نے اپنا فیصلہ کر دیا کہ اس کی رحمت بالکل قریب ہے ۔