وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ
اور ہم نے تمہیں پیدا کیا ، پھر تمہیں صورت دی پھر ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ، سو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس سجدہ کرنے والوں میں نہ تھا (ف ١) ۔
فہم القرآن : ربط کلام : پہلی آیات میں قیامت کے دن اعمال کا وزن کرنے، انبیاء اور امتوں سے ان کے کردار کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی فرمایا کہ ہم نے ہی تمہیں زمین میں ٹھہرایا اور تمہاری حیثیت کا انتظام کیا۔ اب فرمایا کہ اے انسان ہم نے تمہیں پیدا کیا اور بہترین شکل وصورت سےمزین کیا۔ پھر تمہارے باپ آدم کو مسجود ملائکہ کا اعزاز بخشا۔ اس آیت کے الفاظ اور انداز سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو بیک وقت پیدا فرما کر انہیں شکل وصورت سے نوازا بعد ازاں ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں جبکہ قرآن مجید میں ہی موجود ہے کہ سب سے پہلے صرف آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا پھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اور ان سے بے شمار مرد وزن کی تخلیق کا سلسلہ شروع کیا۔[ النساء آیت :1] یہاں ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ﴾ کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا اور ہمیں نے تمہاری شکلیں بنائیں۔ یہاں مخاطب کی ضمیر (کُم) لائی گئی ہے جس کے اہل علم نے تین مفہوم لیے ہیں : 1 آدم (علیہ السلام) تمام انسانوں کے باپ اور نمائندہ ہیں ان کے لیے جمع کی ضمیر استعمال کی گئی ہے۔ 2 تمام ارواح آدم (علیہ السلام) کی پشت یعنی جبلت میں تھیں اور عالم ارواح میں ان کی شکلیں متعین کردی تھیں۔ جس بنا پر جمع مخاطب کی ضمیر لائی گئی ہے۔ سورۃ الاعراف آیت : 172میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے اس کی اولاد کو پیدا فرما کر استفسار کیا کہ میں تمہارا رب ہوں یا نہیں؟ تمام بنی آدم نے جواب دیا ﴿بلٰی﴾ کیوں نہیں تو ہی ہمارا رب ہے۔ 3 آیت کے الفاظ پر معمولی غور کیا جائے تو یہ حقیقت خود بخود واضح ہوتی ہے تخلیق اور شکلوں کے بارے میں جمع مخاطب کی ضمیر لائی گئی ہے لیکن سجدے کا ذکر کرتے ہوئے واضح الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ ہم نے ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں۔ گویا کہ ملائکہ نے آدم (علیہ السلام) کی پوری اولاد کو نہیں بلکہ صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تھا۔ (عَن أَبِیْ مُوسَی الْأَشْعَرِیِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ) [ رواہ ابو داود : کتاب السنہ، باب فی القد ر] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا۔ جو ساری زمین سے لی گئی آدم کی اولاد زمین کے مطابق ہوئی۔ ان میں سرخ، سفید، سیاہ اور درمیانی رنگت کے لوگ ہیں ان میں سخت ہیں اور نرم طبیعت کے ہیں کچھ نیک اور بد ہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ فِیْہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفیہِ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ وَفِیْہِِ اُخْرِجَ مِنْھَا وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلَّا فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ ) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ] ” حضرت ابوہریرۃ (رض) آپ (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ ایام میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی دن ان کو جنت میں داخلہ ملا اور جمعہ کو ہی ان کا جنت سے اخراج ہوا۔ اور اسی دن ہی قیامت برپا ہوگی۔“ ( وَعَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ (ﷺ) قَالَ لَمَّاصَوَّرَ اللّٰہُ اٰدَمَ فِیْ الْجَنَّۃِ تَرَکَہٗ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ یَتْرُکَہٗ فَجَعَلَ اِبْلِیْسُ یُطِیْفُ بِہٖ یَنْظُرُ مَا ھُوَفَلَمَّارَاٰہُ اَجْوَفَ عَرَفَ اَنَّہٗ خُلِقَ خَلْقًا لَایَتَمَالَکُ) [ رواہ مسلم] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی جنت میں شکل و صورت بنائی اس پیکر کو جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا جنت میں اسی طرح رہنے دیا ابلیس اس کے گرد گھوما اور وہ غور کرتا رہا کہ یہ کیا ہے؟ جب اس نے مجسمہ کو دیکھا کہ یہ اندر سے کھوکھلا ہے‘ تو سمجھ گیا کہ یہ ایسی مخلوق تخلیق کی جارہی ہے‘ جو مستقل مزاج نہیں ہوگی۔“ تفسیر بالقرآن : حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے مختلف مراحل : 1۔ حضرت آدم کی تخلیق کا اعلان۔ (البقرۃ:30) 2۔ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ (نوح :17) 3۔ حضرت آدم بد بودار مٹی سے پیدا کیے گئے۔ (الحجر :26) 4۔ حضرت آدم (علیہ السلام) جس مٹی سے پیدا کیے گئے وہ کھڑ کھڑاتی تھی۔ (الحجر :26) 5۔ انسان یعنی آدم (علیہ السلام) کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا۔ (الرحمن :14) 6۔ سب سے پہلے حضرت آدم پھر ان سے ان کی بیوی پھر دونوں سے تخلیق انسانی کا سلسلہ جاری فرمایا۔ (النساء :1)