وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور ان دن تول حق ہے سو جن کی تول بھاری ہوگی ، وہی نجات پائیں گے ۔
فہم القرآن : (آیت 8 سے 9) ربط کلام : سابقہ آیات میں ارشاد ہے کہ ہم انبیاء اور ان کی امتوں سے پوچھیں گے۔ پھر انہیں ان کے اعمال کے بارے میں بتلائیں گے یہاں ارشاد ہے کہ اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ پھر وزن کی بنیاد پرجنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا۔ گو یا کہ یہ پوچھ نہیں بلکہ جزا سزا بھی ہوگی۔ منکرین قرآن اور آخرت کے عقیدہ کا انکار کرنے والے کہا کرتے تھے کہ اعمال کا وزن کس طرح ہوگا۔ یہ نبی جھوٹ بولتا ہے الفاظ ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں زنا کرتا ہے اس کا وزن کیسے ہوگا۔ کفر و شرک کا تعلق عقیدہ کے ساتھ ہے۔ عقیدہ فکر کا نام ہے۔ فکر کی پیمائش اور وزن ہو نہیں سکتا۔ لیکن سائنس نے کا فی حد تک ثابت کردیا ہے کہ ہوا کا وزن ہوسکتا ہے بخار کا ٹمریچر معلوم کرلیا جاتا ہے۔ آواز اور تصویر منتقل کی جاسکتی ہے علیٰ ہذا القیاس کیا جس رب نے انسان کو سب کچھ سکھایا ہے وہ اعمال کا وزن نہیں کرسکتا؟ یقیناً کرسکتا ہے اور کرے گا۔ اسی لیے فرمایا کہ وہ وقت آئے گا اور وزن ہوگا اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے سب کچھ ہو کر رہے گا۔ ہاں جس کا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا۔ وہ کامیاب ہوگا اور جس کا برائیوں کا پلڑا ہلکا ہوا وہ رسوا ہوجائے گا۔ مسائل : 1۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن ہوگا۔ 2۔ جن کی نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا وہ کامیاب ہوگا۔ 3۔ دنیا میں نیک اعمال نہ کرنے والے خائب وخاسر ہوں گے۔