وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ
ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی (ف ١) اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور عیسیٰ (علیہ السلام) ، مریم علیہا السلام کے بیٹے کو کھلے نشان (معجزے) دیئے اور ہم نے اس کو روح القدس (پاک روح) سے مدد دی ، پھر بھلا جب بھی کوئی رسول تمہارے پاس کوئی ایسی چیز لایا ، جسے تمہارے جی نہ چاہتے تھے تو تم گھمنڈ کرنے لگے پس ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو تم قتل کرتے ہو ،
فہم القرآن : (آیت 87 سے 88) ربط کلام : بنی اسرائیل سے عہد لینے کے بعد اس کی یاد دہانی کے لیے مسلسل انبیاء مبعوث کیے گئے مگر یہ لوگ تکبر اور ظلم میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے پختہ عہد سے انحراف، قومی جرائم اور اجتماعی ذلت کا احساس دلا کر بنی اسرائیل کو یاد کروایا گیا ہے کہ اپنی تاریخ کا ریکارڈ ذہن میں لاؤ۔ جب ہم نے تمہاری رہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت کی اور ان کے بعد اس عہد کی یاد دہانی اور ایفا کے لیے متواتر انبیائے کرام مبعوث فرمائے۔ یہاں تک کہ عیسیٰ {علیہ السلام}ایسے معجزات کے ساتھ مبعوث ہوئے کہ جن کے سامنے حاذق اطبا، معروف دانشور اور بڑے بڑے اہل علم طفل مکتب دکھائی دیتے تھے۔ لیکن اے اہل کتاب! تم نے ہر اس بات کا انکار کیا جو تمہارے رواج اور مزاج کے خلاف تھی۔ تم نے نا صرف روشن معجزات اور ٹھوس دلائل کا متکّبرانہ جواب دیا بلکہ انبیاء کی کثیر تعداد کی تکذیب کرتے ہوئے انہیں ماننے سے انکار کردیا اور کچھ انبیاء کو شہید ہی کر ڈالا۔ اب تم گناہوں اور اپنے استکبار کو چھپانے کے لیے کہتے ہو کہ ہم قرآن اور اس نبی کی رسالت کو اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ ہمارے دل علم و دانش کے گہوارے ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اس نبی کی باتوں کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ ہمارے اور اس کے درمیان پردہ حائل ہوچکا ہے۔ یہی وہ بہانے ہیں جو ہر دور میں نام نہاد دانشور اور متعصب مذہبی لوگ کرتے آئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دلائل سمجھنے اور حقائق کو جاننے کے باوجود یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ علم و معرفت رکھتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان پر خدا کی پھٹکار پڑچکی ہے۔ تکبر کا معنٰی اور انجام : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَّنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (رواہ مسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے کہا کہ آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ {ﷺ}نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ) ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا {رض}سے وہ نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا۔ ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل: 1۔ بنی اسرائیل نے کچھ انبیاء کو شہید کیا اور اکثر کو جھٹلا دیا۔ 2۔ منکرین حق بات ماننے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل پردہ میں ہیں۔ تفسیر بالقرآن: لعنتی کون؟ 1۔ شیطان لعنتی ہے۔ (النساء :118) 2۔ کافر لعنتی ہیں۔ (الاحزاب :64) 3۔ اصحاب السبت لعنتی ہیں۔ ( النساء :47) 4۔ یہودی لعنتی ہیں۔ (المائدۃ:64) 5۔ جھوٹے لعنتی ہیں۔ (آل عمران :61) 6۔ ظالم پر لعنت ہوتی ہے۔ (ھود :18) 7۔ حق چھپانے والے لعنتی ہیں۔ (البقرۃ :159) 8۔ اللہ اور رسول کو تکلیف دینے والے لعنتی ہیں۔ (الاحزاب :57)