وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور (کہا ہے) کہ یہ میری سیدھی راہ ہے ، سو اس پرچلو ، اور کئی راہیں نہ چلو ، کہ وہ راہیں تمہیں اس کی راہ سے الگ کر دینگی یہ ہیں ، جو اس نے تمہیں حکم دیئے ، شاید تم ڈرو (ف ١) ۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی وصیتوں کا خلاصہ اور نتیجہ صراط مستقیم ہے۔ اے لوگو! بس صراط مستقیم پر چلو۔ نو نصیحتیں کرنے کے بعد فرمایا یہی سیدھا راستہ ہے کیونکہ نصائح کے آغاز میں لفظ ” قل“ سے حکم دیا گیا تھا کہ اے نبی (ﷺ) آپ ان لوگوں کو یہ نصائح پڑھ کر سنائیں اب ان کے اختتام پر فرمایا ہے کہ آپ یہ اعلان فرمائیں کہ یہی میرا صراط مستقیم ہے لہٰذا تم سب کے سب اسی کی اتباع کرو دوسرے راستوں اور طریقوں کی پیروی نہ کرو۔ اگر تم اس راستہ کے سوا دوسرے راستوں پر چلو گے تو سیدھے راستے سے ہٹ جاؤ گے اس لیے تمھیں وصیت کی جاتی ہے کہ تم اسی راستہ پر چلنا تاکہ تم گناہ اور گمراہی کے راستوں سے بچ جاؤ۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (ﷺ) فَخَطَّ خَطًّا وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّمِینِہٖ وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّسَارِہٖ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ فِی الْخَطِّ الْأَوْسَطِ فَقَالَ ہَذَا سَبِیل اللّٰہِ ثُمَّ تَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ ﴿وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾) [ رواہ ابن ماجۃ: باب اتباع سنۃ رسول اللہ (ﷺ) ] ” حضرت جا بر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی اکرم (ﷺ) کے پاس تھے آپ (ﷺ) نے ایک سیدھا خط کھینچا پھر اس کے دائیں اور بائیں مختلف خطوط کھینچے پھر آپ (ﷺ) نے اپنا دست مبارک درمیان والے سیدھے خط پر رکھتے ہوئے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے، پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی :” اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو اس کے سوا دوسری راہوں پر نہ چلو دوسری راہیں تمہیں صراط مستقیم سے جدا کردیں گی۔“