وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور تم مسلمان ان کے معبودوں کو جن کو وہ خدا کے سوا پکارتے ہیں ‘ برا نہ کہو کہ وہ بےسمجھے سرکشی سے اللہ کو برا کہیں گے اسی طرح ہم نے ہر امت کے لئے ان کے اعمال اچھے دکھلائے ہیں ‘ پھر انہیں اپنے رب کی طرف جانا ہے سو وہ انہیں جتائے گا جو وہ کرتے تھے ۔ (ف ١) ۔
فہم القرآن : ربط کلام : مشرکوں کے شرک اور مخالفوں کے رد عمل میں اخلاق کا دامن نہ چھوڑنے کی ہدایت۔ رسول معظم (ﷺ) کا عزم و حوصلہ فلک بوس پہاڑوں سے بلند و بالا، آپ کی برد باری اور درگزر سمندر کے پانی کی گہرائی اور پھیلاؤ سے زیادہ تھی۔ آپ مشکل سے مشکل حالات میں صبر کرنے اور حوصلہ رکھنے والے تھے۔ کسی کی سنگین سے سنگین تر گستاخی اور زیادتی کے مقابلہ میں کبھی مشتعل نہ ہوتے۔ مکہ والوں نے آپ کی ذات اقدس پر ہر قسم کے الزام لگائے۔ سجدہ کی حالت میں آپ پر گندگی سے بھری ہوئی اونٹ کی اوجڑی رکھ دی۔ آپ کی ننھی منھی بچی حضرت فاطمہ (رض) کے معصوم چہرہ پر ابو جہل نے طمانچہ مارا۔ طائف کے غنڈوں نے آپ پر پتھربرسائے اور بدکلامی کی انتہا کردی مدینہ میں منافقوں نے ہر قسم کی ہرزہ سرائی کی یہاں تک کہ آپ کی پاک دامن اور وفا شعار بیوی حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی حالانکہ اس وقت اقتدار اور اختیار کے لحاظ سے سر زمین حجاز میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان مظالم اور زیادتیوں پر آپ کا مشتعل ہونا اور کسی سے بدلہ لینا تو درکنار پوری زندگی آپ کی زبان اطہر سے کسی نے کبھی سطحی لفظ نہیں سنا۔ پچھلی آیات میں آپ کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ یہاں آپ کے بجائے مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ تبلیغ کے میدان میں کئی مراحل ایسے آتے ہیں کہ مبلغ کے لیے نازک صورت حال کو برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے بالخصوص جب مشرکین سچے خالق اور رحیم و کریم رب کے مقابلہ میں اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے لکڑی اور پتھر کے بتوں کو پیش کرتے، ان کے مشکل کشا، حاجت روا ہونے کے گھٹیا دلائل دیتے ہیں تو موحّد کی غیرت ایمانی جوش میں آتی ہے جس کی بنا پر ایک مصلح اور مبلغ کی زبان پر سطحی لفظ کا آنا غیر فطری بات نہیں۔ لیکن تبلیغ کے میدان میں چھوٹی سی لغزش بھی مبلغ کے لیے عار اور اس کے مشن میں رکاوٹ بنتی ہے اس لیے اسے ضابطۂ اخلاق کا پابند بناتے ہوئے گالی سے روکا گیا ہے۔ (سورۃ حٰم السجدہ، آیت : ٣٤) میں یہ کہہ کر مبلغ کو اخلاق کا سبق دیا گیا کہ نیکی اور برائی برابر نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا کسی سے بحث و تکرار کے وقت بھی حسن اخلاق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مشرک دلائل کے اعتبار سے نہایت ہی کمزور ہوتا ہے اس لیے وہ فطرتاً سفلہ مزاج اور کم ظرف واقع ہوا ہے جس بنا پر باطل معبودوں کی حمایت میں وہ سچے حقیقی معبود کی گستاخی کرنے میں بھی نہیں چونکتا اسے بے علم اور کم حوصلہ قرار دیتے ہوئے مواحد کو سمجھایا گیا ہے کہ ان کے باطل خداؤں کے بارے میں برے الفاظ مت کہو۔ کہیں وہ ذات کبریا کے بارے میں برے الفاظ نہ کہہ دیں۔ اس طرح تمھاری اخلاقی کمزوری کی وجہ سے وہ شرک میں آگے بڑھتے ہوئے تمھیں مشتعل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس سے فائدے کے بجائے تبلیغ کے مشن کو نقصان ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قرآن مجید باطل معبودوں کے لیے ﴿مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾ کے الفاظ استعمال کرتا ہے جو عربی زبان میں زندہ اور ذوی العقول کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ ﴿مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾ سے مراد بے جان چیزیں اور پتھر کے بت مراد لیتے ہیں انھیں اپنی غلط فہمی دور کرلینی چاہیے کیونکہ من دون اللہ کے دائرہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا ہر وہ چیز اور ذات آئے گی جسے کسی نہ کسی انداز میں خدا کی خدائی میں شریک کیا جاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر ہر مبلغ کو تسلی دی ہے کہ مشرکوں اور خدا کے نافرمانوں کی نافرمانیوں اور شرک کی وجہ سے ان کے اعمال ان کے لیے خوبصورت بنا دیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ شرک اور توحید میں فرق نہیں سمجھتے، گناہ اور خدا کی نافرمانی کو اپنی زندگی کا معمول بنائے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جتنا چاہیں دندناتے پھریں آخر وہ وقت آکر رہے گا جب انھیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے ان کی ایک ایک حرکت اور عمل کے بارے میں نہ صرف ان کو بتلایا جائے گا بلکہ انھیں اس کے انجام سے دو چار ہونا ہوگا۔ (عَنْ وَائِلٍ (رض) عَنْ الْمُرْجِئَۃِ فَقَالَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُہُ کُفْرٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب خَوْفِ الْمُؤْمِنِ مِنْ أَنْ یَحْبَطَ عَمَلُہُ وَہُوَ لاَ یَشْعُرُ ] ” حضرت وائل (رض) مرجۂ سے بیان کرتے ہیں مجھے عبداللہ (رض) نے بتایا بلاشبہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔“ مسائل : 1۔ باطل عقائد کا حکمت و دانائی کے ساتھ رد کیا جانا چاہیے۔ 2۔ ہر گروہ کے لیے ان کے اعمال مزین کردیے گئے ہیں۔ 3۔ بتوں کو بھی گالی دینے کی اجازت نہیں ہے۔ 4۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن : برے اعمال کن لوگوں کے لیے خوبصورت ہوتے ہیں : 1۔ جن کے دل سخت ہوگئے اور ان کے اعمال کو شیطان نے مزین کردیا۔ (الانعام :43) 2۔ جن لوگوں کا آخرت پر ایمان نہیں شیطان ان کے اعمال مزین کردیتا ہے۔ (النمل :4) 3۔ کفار کے لیے دنیا کی زندگی مزین کردی گئی۔ (البقرۃ:212) 4۔ کفار کے لیے ان کے اعمال کو مزین کردیا گیا ہے۔ (الانعام :122)