وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا ۗ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ
اور اگر اللہ چاہتا ، تو وہ شریک نہ ٹھہراتے اور تجھے ہم نے ان پر نگہبان نہیں بنایا ، اور تو ان پر داروغہ ہے ۔ (ف ٥) ۔
فہم القرآن : ربط کلام : پچھلی آیات کے آخر میں مختلف الفاظ اور انداز میں نبی کریم (ﷺ) کو ڈھارس اور تسلی دی گئی ہے کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں، توحید کے عقیدہ پر پکے رہ کر اللہ کی عبادت کرتے رہیں اور مخالفوں کو خاطر میں نہ لائیں۔ یہاں کھول کر بیان کردیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنا سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہے کہ یہ لوگ شرک کی ضلالت میں مبتلا رہیں۔ اس بات کی پہلے بھی دلائل کی روشنی میں صراحت کی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی کو ہدایت پر گامزن نہ کرنے یا گمراہی میں مبتلا رکھنے کا یہ معنیٰ نہیں کہ رب ذوالجلال انھیں خود ہدایت سے محروم اور شرک میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے بلکہ لفظ ﴿یَشَآءُ﴾ کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت کی طرف نہیں کھینچتا۔ کیونکہ اس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر عقل و خرد کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ کتاب مبین کی صورت میں صراط مستقیم کی طرف جامع اور اکمل ہدایات دے کر اس کے راہی کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کی ضمانت دی ہے۔ صراط مستقیم چھوڑنے والوں کو دنیا کے نقصان اور آخرت کے عذاب سے متنبہ کیا ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ ہدایت اور گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ کیونکہ جس طرح ظاہری نقصان کا مالک اللہ ہے اسی طرح وہ روحانی نفع و نقصان کا اختیار رکھنے والابھی وہی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اس کی حدود کار کی نشاندہی کرتے ہوئے تسلی اور تسکین دیتا ہے کہ میرے نبی آپ لوگوں کے لیے داعی ہیں ان کے معاملات کے محافظ اور ذمہ دار نہیں بنائے گئے۔ بس آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو واضح فرمادیا ہے۔ 2۔ نبی کریم (ﷺ) وحی کے پابند تھے۔ 3۔ سرور کائنات (ﷺ) پر مشرکوں کا کوئی ذمہ نہیں تھا۔