سورة الانعام - آیت 30

وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ قَالَ أَلَيْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور کاش تو ان انکی اس وقت کی حالت دیکھتے جب وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کئی جائیں گے اللہ کہے گا کیا یہ (عذاب) سچ نہ تھا کہ کہیں گے ہمیں اپنے رب کی قسم ضرور سچ تھا کہے گا تم اب اپنی کفر کے بدلے میں عذاب چکھو ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 30 سے 31) ربط کلام : مجرموں کی اللہ کے حضور پیشی اور اس کی بارگاہ میں سوال وجواب۔ قرآن مجید بار بار انسان پر یہ حقیقت عیاں کرتا ہے کہ اسے مرنے کے بعد اپنے کیے کا جواب دینا ہے۔ جس کی ابتدا قبر کی کوٹھڑی سے ہوگی۔ جب میت کو دفنایا جاتا ہے ابھی اس کے اعزاء و اقرباء قبر پر مٹی ڈال کر رخصت ہی ہوتے ہیں کہ منکر نکیر مرنے والے سے تین سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ تو محمد (ﷺ) کے بارے میں کیا جانتا ہے ؟ اور تیرا دین کونسا ہے ؟ قبر سے اٹھنے کے بعد محشر کے میدان میں جب لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو ان سے سوال کیا جائے گا کہ کیا مرنے کے بعد اٹھ کر حشر کے میدان میں رب کی بارگاہ میں حاضر ہونا حق ہے یا نہیں ؟ تو انسان بے ساختہ پکار اٹھیں گے کیوں نہیں ہم نے قدم قدم پر اپنے رب کا وعدہ سچا پایا۔ جہاں تک مجرموں کا تعلق ہے وہ دہائی دیں گے اے ہمارے رب ! آج ہمیں یقین ہوگیا کہ آپ کا فرمان سچا اور آپ کی ملاقات برحق تھی لیکن ان کا اعتراف اور معذرت کسی کام نہیں آئے گی۔ حکم ہوگا کہ اب عذاب کی سختیاں اور جہنم کی اذیتیں چکھتے رہو کیونکہ بار بار سمجھانے کے باوجود تم کفر ہی کرتے رہے تھے۔ تم نے اپنے رب کی ملاقات کو جھٹلائے رکھا یہاں تک کہ قیامت برپا ہوگئی۔ کافر، منافق، مشرک اور عادی مجرم حسرت و یاس کا اظہار کرتے ہوئے گناہوں کا بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوں گے۔ نہایت ہی بدترین بوجھ ہوگا جو انھیں اٹھانا پڑے گا۔ تیسرا موقع سوال و جواب کا اس وقت ہوگا جب مجرم اپنا اپنا بوجھ اٹھائے ذلت و رسوائی کی صورت میں جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے جب یہ لوگ جہنم کے کنارے پہنچیں گے تو ان کے لیے جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے داخلے کے وقت جہنم کے فرشتے ان سے سوال کریں گے کیا تم میں رسول مبعوث نہیں کیے گئے جو تمھارے سامنے تمھارے رب کے احکام پڑھتے اور تمھیں آج کے دن کی ہولناکیوں سے ڈراتے؟ جہنمی پکار پکار کرکہیں گے کیوں نہیں ! انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے ہمیں آگاہ کیا اور اس دن سے ہمیں بار بار ڈرایا لیکن ہم نے کفر و استکبار کا رویہ اختیار کیا جس وجہ سے آج ہمیں یہ رسوائی کا دن دیکھنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب برحق ثابت ہوا یہ سنتے ہی ملائکہ ان پر لعنت کی بوچھاڑ کریں گے۔ (الزمر : 71تا72) مسائل : 1۔ مشرکین قیامت کے دن حق کا اعتراف کریں گے۔ 2۔ آخرت کا انکار کرنے والے نقصان اٹھائیں گے۔ 3۔ منکرین حق ہر مرحلہ پر حسرت کا اظہار کریں گے۔ 4۔ ہر انسان قیامت کے دن اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے گا۔ تفسیر بالقرآن : جہنمیوں کے اعترافات : 1۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنمیوں سے فرمائے گا کیا آج کا عذاب برحق نہیں وہ کہیں گے کیوں نہیں۔ (الاحقاف :34) 2۔ جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : 27تا28) 3۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر :37) 4۔ اے رب ہمارے! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون :107)