سورة الانعام - آیت 1

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ۖ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور تاریکی اور روشنی کو پیدا کیا (ف ١) ۔ پھر یہ کافر اپنے رب کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : قرآن مجید نے اس حقیقت کو بار بار واضح فرمایا ہے کہ زمین کا ذرہ ذرہ اور آسمانوں کا چپہ چپہ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش میں رطب اللّسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اسی بنا پر اس سورۃ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ اپنی حمد کا استحقاق بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا اور اسی نے ظلمات اور نور بنایا لیکن کافر اتنے ناعاقبت اندیش ہیں کہ وہ اس عظیم الشان ہستی کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کو اس کے برابر گردانتے ہیں حالانکہ وہ ایسی ہستی ہے جس نے نہ صرف سب کو پیدا فرمایا ہے بلکہ ہر کسی کی ضرورت کے مطابق اس کی پرورش کا انتظام فرمایا ہے۔ یہاں زمین و آسمانوں کے لیے تخلیق کا لفظ استعمال فرمایا۔ اندھیروں اور روشنی کے لیے ﴿جَعَلَ﴾ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ شاید اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو جو موجودہ سائنس دانوں نے ہمارے سامنے پیش کی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے جس طرح زمین ایک کرَّہ ہے اسی طرح سورج چاند اور بے شمار کرّہ جات ہیں۔ جس طرح سورج کے عکس سے چاند روشن ہوتا ہے اسی طرح بلندی پر جاکر دیکھیں تو زمین چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور ہر کرّہ ایک دوسرے کو روشن کیے ہوئے ہے۔ پھر اندھیرے کے لیے جمع کا لفظ استعمال کیا اور روشنی کو واحد قرار دیا۔ اس لیے اکثر مفسرین نے واضح فرمایا کہ اندھیرے کئی قسم کے ہیں اور روشنی ایک ہی ہوتی ہے۔ ظلمات سے مراد مختلف قسم کی گمراہیاں ہیں اور نور کا مفہوم ہدایت لیا گیا ہے کیونکہ ہدایت ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہے اور گمراہی ہر دور میں اپنا روپ بدلتی رہتی ہے۔ لفظ ظلمات کو پہلے اس لیے لایا گیا یہ کائنات پہلے دھواں کی شکل میں تھی جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ اور موجودہ سائنس بھی اس کی تائید کر رہی ہے۔