مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
خدا نے حرام مقرر نہیں کی کان پھٹی اور نہ سانڈھ اور نہ مسلسل مادہ بچے جننے والی اونٹنی اور نہ دس بچے جنانے والا اونٹ لیکن کافر خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں ‘ اور ان میں بہتوں کو سمجھ نہیں (ف ١) ۔
فہم القرآن : ربط کلام : سلسلۂ کلام کے درمیان ادب سکھلانے کے بعد اب پھر مزید حرام چیزوں کی نشا ندہی کی جارہی ہے۔ اس سے پہلی آیات میں کثرت سوال سے منع فرمایا تھا۔ اس آیت میں فرمایا ہے کہ مشرکوں نے از خود بعض جانوروں کو حرام کرلیا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حرام نہیں کیا بلکہ وہ بدستور حلال ہیں۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام نہ کیا ہو اس کو حرام قرار دے کر شریعت سازی نہ کرو۔ بحیرہ : وہ جانور ہوتا تھا جس کا دودھ بتوں کی نذر کردیا جاتا تھا کوئی شخص اس کو دوہ نہیں سکتا تھا۔ اس کے کان چیر کر اس کو آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ اس پر سواری کی جاتی نہ اس پر سامان لادا جاتا اور نہ ہی اس کا دودھ دوہا جاتا یہ جس چراگاہ سے مرضی چرے اور پانی پیے۔ سائبہ : وہ جانور ہے جس کو بتوں کے نام منسوب کیا جاتا اور اس پر کسی قسم کابوجھ نہیں ڈالا جاتا تھا تو اس اونٹنی کو آزاد کرکے بتوں کے نام کردیتے تھا ایسی اونٹنی کو سائبہ کا نام دیا جاتا۔ وصیلہ : اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو پہلی بار اور دوسری بار مادہ بچہ جنم دے ان دوبچوں کے درمیان کوئی نر بچہ نہ ہو تو اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے۔ حام : اس نر اونٹ کو کہتے ہیں جو ایک خاص تعداد کے مطابق جفتی کرچکا ہو اور اسے بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جائے۔ سعید بن مسیب (رض) بیان کرتے ہیں بحیرہ وہ اونٹنی سمجھی جاتی جس کا دودھ دوہنا بتوں کی وجہ سے منع کردیا جاتا تھا اور کوئی شخص اس کا دودھ نہیں دوہتا تھا۔ سائبہ وہ اونٹنی ہے جس کو وہ اپنے بتوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے اور اس پر کسی چیز کو لادا نہیں جاتا تھا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا وہ دوزخ میں اپنی آنتوں کو گھسیٹ رہا تھا کیونکہ یہی وہ شخص تھا جس نے سب سے پہلے سائبہ اونٹنیوں کو چھوڑا تھا۔“ [ رواہ البخاری : باب قصۃ خزاعۃ] مسائل : 1۔ من گھڑت رسوم و رواج کو اللہ کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ کافر لوگ اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں۔ 3۔ مشرکین حق کو پہچاننے کے لیے عقل سے کام نہیں لیتے۔