وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
اور جب وہ کلام سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو تو دیکھتا ہے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے حق پہچان لیا ہے کہتے ہیں کہ اے رب ہم ایمان لائے سو ہمیں گواہوں میں لکھ لے۔ (ف ١)
فہم القرآن : (آیت 83 سے 86) ربط کلام : پہلی آیت میں یہودیوں کے مقابلہ میں عیسائیوں کی نرمی کی بات کی گئی تھی۔ اب اس کا عملی ثبوت پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ مسئلہ بھی سمجھا دیا کہ تکبر سے اجتناب اور اللہ کے خوف کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی قرآن مجید کی تلاوت سنے تو حق کو پہچانتے ہوئے اپنے رب سے عاجزانہ درخواست کرے کہ اسے اس کا رب توحید اور حق کی شہادت دینے والوں میں شامل فرمائے۔ مکہ معظمہ میں جوں جوں اسلام کی ترویج ہو رہی تھی۔ اسی رفتار سے اہل مکہ کے جو رواستبداد میں اضافہ ہوتاجا رہا تھا ان کی ایذا رسانیوں سے تنگ آکر نبوت کے پانچویں سال مسلمانوں کے 83آدمی اور 18عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نبی کریم (ﷺ) نے امید ظاہر فرمائی کہ اللہ تعالیٰ یقیناً تمھیں وہاں امن وسکون سے نوازے گا۔ کیونکہ حبشہ کا حکمران منصف مزاج انسان ہے۔ چنانچہ ستم رسیدہ لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے لیکن اہل مکہ نے اس اقدام کو گوارا نہ کیا۔ انھوں نے عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو جو انتہائی دانشور اور سفارتی معاملات کی اونچ نیچ کو سمجھنے والے تھے گراں قدر تحائف دے کر حبشہ کے حکمران نجاشی کے پاس بھیجا۔ انھوں نے حبشہ پہنچ کر سب سے پہلے نجاشی کے وزیروں اور مذہبی رہنماؤں سے رابطہ کیا جو اس کے سب سے زیادہ قریب سمجھے جاتے تھے۔ مکی وفد کی گفتگو اور تحائف سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے وعدہ کیا کہ جب تم نجاشی سے اپنی آمد کا مقصد بیان کر چکو تو ہم تمھاری بھرپور تائید کریں گے۔ اگلے دن مکی وفد نجاشی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اس کے حضور شاہی آداب کی بجا آوری اور اپنے علاقے کے نادر تحائف پیش کرنے کے بعد اپنا مقصد اس طرح بیان کیا۔ ” اے بادشاہ! آپ کے ملک میں ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بھاگ آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے۔ لیکن آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے بلکہ ایک نیا دین ایجاد کیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ۔ ہمیں آپ کی خدمت میں انہی کی بابت ان کے والدین، چچاؤں اور کنبے قبیلے کے عمائدین نے بھیجا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ انہیں ہمارے ساتھ واپس بھیج دیں کیونکہ وہ لوگ ان پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی خامی اور ناراضگی کے اسباب کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔“ جب یہ دونوں اپنا مدعا عرض کرچکے تو اس کے مصاحبین نے کہا :” بادشاہ سلامت ! یہ دونوں ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ ان جوانوں کو ان کے حوالے کردیں ہم انہیں ان کی قوم اور ان کے ملک میں واپس پہنچا دیں گے۔“ لیکن حکمران نے یکطرفہ کارروائی کرنے کے بجائے مسلمانوں کو اپنی خدمت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ نجاشی مسلمانوں سے سوال کرتا ہے یہ کون سا دین ہے جس بنا پر تم نے اپنے اعزاء و اقارب، کا روبار اور گھر بار چھوڑدیا ہے ؟ وفد کے ترجمان حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) نے مفصل جواب دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم غریبوں، مسافروں اور پڑوسیوں پر ظلم کرنے والے تھے۔ ہمارے رسول نے ہمیں اس سے منع کرتے ہوئے سمجھایا کہ لوگوں پر ظلم کرنے کے بجائے ان کے معاون اور مددگار بن جاؤ۔ حضرت جعفر (رض) نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ہم پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے تھے ہمارے نبی (ﷺ) نے اسے ناجائز قرار دیتے ہوئے حکم دیا تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کیا کرو۔ حضرت جعفر (رض) نے اپنا نظریہ اور مؤقف اتنا دلگداز طریقے سے پیش کیا کہ نجاشی نے ان کا خطاب سنتے ہی حکم صادر فرمایا کہ میں مظلوموں کو اپنے ملک میں پناہ دیتا ہوں۔ اس ناکامی پر مکی وفد نے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے اگلے دن نجاشی کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی یہ کہہ کر توہین کرتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کا بندہ، رسول اور فقط ابن مریم ہے۔ قریب تھا عمرو بن عاص کا یہ حربہ کارگر ثابت ہوتا لیکن حضرت جعفر (رض) نے سورۃ مریم کی آیات ایسے رقت آمیز لہجے میں تلاوت کیں کہ جس سے شاہی دربار میں ایک سماں پیدا ہوا۔ شاہ حبشہ نے کہا کہ قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے یہی حق ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس میں کوئی توہین نہیں پائی جاتی۔ اس طرح مسلمانوں کو سکون ملا اور مکہ کا وفد ناکام لوٹا۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد حبشہ سے ستر زعماء پر مشتمل رسول محترم (ﷺ) کی خدمت میں عیسائیوں کا وفد آیا جب یہ لوگ اسلام کے بارے میں نبی معظم (ﷺ) سے گفتگو کر رہے تھے تو آپ نے ان کے سامنے سورۃ یٰس کی تلاوت فرمائی سنتے ہی وفد کی آنکھوں سے چھم چھم آنسو بہنے لگے وہ جوں جوں قرآن مجید کی تلاوت سن رہے تھے زارو و قطار رونے کے ساتھ اس بات کا اقرار کر رہے تھے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو حق سمجھ کر پہچان لیا ہے۔ ہماری اس کے حضور عاجزانہ التجا ہے کہ وہ ہمیں حق کی شہادت دینے والوں میں شامل فرمالے۔ حق پہچان لینے کے بعد ہمارے پاس اب کوئی حُجّت نہیں کہ ہم حق کا انکار کریں لہٰذا ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں اپنے نیک بندوں میں شمار فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ایمان قبول کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہمیشہ رہنے والی جنت کا وعدہ فرمایا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں محسنین کے لیے ایسا ہی بدلہ تیار کیا گیا ہے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر و تکذیب کا رویہ اختیار کریں گے انھیں دہکتی ہوئی جہنم میں جھونکا جائے گا۔ مسائل: 1۔ حق جان لینے کے بعد اسے مان لینا چاہیے۔ 2۔ حق کی گواہی دینا باعث نجات ہے۔ 3۔ نیک لوگوں کی صحبت کی دعا کرنی چاہیے۔ 4۔ شریعت الٰہی پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمائے گا۔ 5۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ 6۔ اللہ کے بندے قرآن مجید سن کر رو پڑتے ہیں۔ 7۔ نیکوں کو ان کی نیکی اور بروں کو ان کی برائی کی پوری پوری جزاء و سزا ملے گی۔ تفسیر بالقرآن :ایمان قبول کرنے والوں کی دعائیں : 1۔ فرعون کی مومنہ بیوی کی ظلم سے نجات کی دعا۔ (التحریم :11) 2۔ جادوگروں کی ایمان کے بعد صبر اور ثابت قدمی کی دعا۔ (الاعراف : 120تا126) 3۔ ایمان لانے کے بعد طرح طرح کے ادعیہ ماثورہ کا ذکر۔ (البقرۃ: 285تا286) 4۔ ہمارے رب ہم نے ایمان کی دعوت قبول کی تو ہماری خطاؤں کو معاف فرما۔ (آل عمران : 193تا194) 5۔ اے رب ہمارے ! ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو معاف فرما۔ (الحشر :10) 6۔ جب طالوت اور جالوت کے لشکر بالمقابل ہوئے تو انھوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہم پر صبر نازل فرما اور ہمیں ثابت قدم فرما اور کافروں کی قوم پر ہماری مدد فرما۔ (البقرۃ:250) 7۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب بے شک ہم ایمان لائے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ (آل عمران :16)