مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
مسیح (علیہ السلام) اور کچھ نہیں ، مگر ایک رسول ۔ اس سے پہلے بہت رسول گزر چکے ہیں اور اس کی ماں صدیقہ تھی وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے (ف ١) دیکھ ہم ان کے لئے کس طرح نشانیاں بیان کرتے ہیں پھر دیکھ وہ کہاں الٹے جاتے ہیں ۔
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو اللہ کا جزو قرار دیا جو صریح کفر کرنے کے مترادف ہے حالانکہ عیسائیوں اور دنیا کے مشرکوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک بنانے کی کوئی دلیل نہیں۔ الٰہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کبریا ہے جو ایک ہی ہے عیسائیوں کو ان کے باطل عقیدہ پر انتباہ کرتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر یہ توبہ کے بغیر مر گئے تو انہیں اذیت ناک عذاب دیا جائے گا اب عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ کے الٰہ نہ ہونے کے طبعی اور فطری دلائل دیے گئے ہیں۔ 1۔ عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت مریم علیہا السلام کے بیٹے ہیں جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) الٰہ نہیں کیونکہ اسے مریم علیہا السلام نے جنم دیا ہے اور ان کی پیدائش باپ کے بغیر ہوئی جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے جس کے بارے میں سورۃ آل عمران کی آیت 34تا 60یعنی 26آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نانی کی نذر ماننے سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع آسمانی تک کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور سورۃ مریم میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے وقت حضرت مریم علیہا السلام کا اضطرار اور پریشانی کا بیان اور لوگوں کا مریم علیہا السلام کو الزام دینا، حضرت عیسیٰ [ کا مریم کی گود میں قوم کو مفصل اور کامل جواب دینا اور اپنے بارے میں اس بات کی وضاحت کرنا کہ میں غیر انسانی مخلوق ہونے کی بجائے اللہ کا بندہ ٗاس کا رسول ہوں اور میری ولادت سے لے کر میرے محشر کے دن اٹھنے تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر سلامتی ہوگی۔ ( مریم 17تا37) 2۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ان سے پہلے بھی بے شمار رسول آئے اور فریضۂ نبوت سرانجام دینے کے بعددنیا سے رخصت ہوئے ظاہر ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اپنا فرض ادا کرنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوجائیں گے فرق صرف اتنا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اٹھالیا ہے اور قیامت کے قریب ان کا نزول ہوگا اور دنیا میں چالیس سال گزارنے کے بعد فوت ہوں گے۔ 3۔ یہودی حضرت مریم علیہا السلام پر ( خاکم بدہن) بدکاری کا الزام لگاتے ہیں جس کی تردید کے لیے حضرت مریم علیہا السلام کو صدیقہ کے عظیم لقب سے نوازا گیا ہے۔ جو لفظ صدیق کی مؤنث ہے۔ نبوت کے بعد صدیق کا مقام ہے۔ 4۔ حضرت مریم علیہا السلام کی پاکدامنی اور ہر اعتبار سے طاہرہ، طیبہ ہونے کی شہادت دینے کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے بارے میں طبعی اور فطری یہ دلیل دی گئی ہے کہ وہ دونوں اکل وشرب کے محتاج تھے جبکہ اللہ تعالیٰ کھانے پینے اور مخلوق کی حاجات سے بے نیاز اور مبرّا ہے۔ ان دلائل کے بعد حکم ہوا کہ غور کیجئے کہ ہم نے سچائی واضح کرنے کے لیے کتنے کھلے دلائل بیان کیے ہیں اور اس پر بھی غور کیجئے کہ کتنے ٹھوس اور واضح دلائل ہونے کے باوجود لوگ حقائق کا انکار اور شرک کا ارتکاب کرکے کس طرح گمراہی میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے امام رازی (رح) درج ذیل نکات اٹھاتے ہیں۔ (1) دوسرے انبیاء معجزات دکھانے سے الٰہ نہیں ہوئے تو عیسیٰ (علیہ السلام) معجزات کی بناء پر کس طرح الٰہ ہو سکتے ہیں ؟ (2) حضرت آدم (علیہ السلام) ماں باپ کے بغیر پیدا ہوئے جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) صرف باپ کے بغیر پیدا ہوئے ہیں تو انہیں کس طرح الٰہ کا درجہ دیاجاسکتا ہے ؟ (3) جو چیز معرض وجود میں آئے یا جو کسی سے جنم پائے وہ حادث ہوتی ہے جس کا معنی ہے کہ وہ پہلے موجود نہیں تھی اور یہ دلیل ہے کہ عدم سے وجود میں آنے والا الٰہ نہیں ہوسکتا۔ ” وہی اول ہے اور وہی آخر ہے وہ ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔“ [ الحدید :3] اسی طرح انجیل میں خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ہے کہ جب ان کے شاگردان کو ایک روح سمجھ کر ان سے ڈرے تو انھوں نے بھنی ہوئی مچھلی کا ایک قتلہ ان کے سامنے کھا کر ان کو اطمینان دلایا کہ وہ کوئی روح نہیں بلکہ آدمی ہیں۔ لوقا میں ہے : ” وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ یسوع آپ انکے بیچ میں کھڑا ہوا اور ان سے کہا تمہاری سلامتی ہو مگر انھوں نے گھبرا کر اور خوف کھا کر یہ سمجھاکہ کسی روح کو دیکھتے ہیں۔ اس نے ان سے کہا تم کیوں گھبراتے ہو اور کس واسطے تمہارے دل میں شک پیدا ہوتے ہیں۔ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ میں ہی ہوں۔ مجھے چھو کر دیکھو کیونکہ روح کے گوشت اور ہڈی نہیں ہوتی، جیسا مجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ اور پاؤں دکھائے۔ جب مارے خوشی کے ان کو یقین نہ آیا اور تعجب کرتے تھے تو اس نے ان سے کہا کیا یہاں تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟ انھوں نے اسے بھنی ہوئی مچھلی کا قتلہ دیا۔ اس نے لے کر ان کے رو برو کھایا۔“ (لوقا : باب24: 36۔43) مسائل : 1۔ مسیح ابن مریم اللہ کے رسول تھے۔ 2۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کھانا کھاتے تھے۔ 3۔ واضح دلائل کے باوجود حقیقت کو نہ ماننے والا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : بہکے ہوئے لوگ : 1۔ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنا، زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کرنا اللہ ہی کا کام ہے تم کہاں بہک گئے ہو؟ (الانعام :95) 2۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن :62) 3۔ ان کو کس نے پیدا کیا؟ جو اب دیں گے اللہ نے۔ تو پھر یہ کہاں بہک گئے ہیں؟ (الزخرف :87) 4۔ آپ فرما دیں اللہ ہی نے تخلیق کی ابتداء کی پھر دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم کہاں بہک گئے ہو؟ (یونس :34) 5۔ نہیں ہیں مسیح ابن مریم مگر رسول اس سے پہلے کئی رسول گزر چکے ان کی والدہ صدیقہ ہیں۔ وہ کہاں بہک گئے ہیں؟ (المائدۃ:75)