لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلًا ۖ كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ
ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے ، جب کوئی رسول ان کے پاس ایسی بات لایا جو انہیں ناپسند تھی ، انہوں نے کتنوں کو جھٹلایا اور کتنوں کو قتل کیا ۔ (ف ٢)
فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل سے ایمان باللہ، آخرت پر یقین اور دیگر انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ نبی آخر الزماں (ﷺ) پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا۔ اگر وہ اس پر عمل کرتے تو مغضوب ہونے کے بجائے دنیا اور آخرت میں بے خوف ہوجاتے۔ بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے جو عہد لیا تھا اس کی تفصیل سورۃ البقرہ آیت 83المائدہ 12میں گزر چکی ہے البقرہ آیت 83میں یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت تمام انبیاء کرام سے یہ عہد لیا تھا کہ جس نبی کی نبوت کے دور میں خاتم المرسلین حضرت محمد (ﷺ) تشریف لائیں اسے اپنی نبوت کاسلسلہ ختم کرتے ہوئے آخری نبی کی رسالت کا پرچم اٹھانا ہوگا اس عہد کی بنیاد پر ہر رسول اور نبی اپنی امت سے یہ عہد لیا کرتا تھا کہ جونہی نبی آخرالزماں جلوہ افروز ہوں۔ ہر کسی کافرض ہوگا کہ وہ آخری نبی کا کلمہ پڑھے اور آپ کے لائے ہوئے دین کو اختیار کرے لیکن بنی اسرائیل کی اکثریت نہ صرف اس عہد سے منحرف ہوئی بلکہ انہوں نے اپنے میں سے مبعوث ہونے والے ہر نبی کی مخالفت کی۔ ان کا مزاج تھا اور ہے کہ یہ اپنے آپ کو شریعت کے حوالے کرنے کی بجائے شریعت کو اپنا غلام بنانے کی مذموم کوشش میں مصروف رہتے ہیں اسی بناء پر ہی انہوں نے انبیاء کی تکذیب کی اور اسی وجہ سے ہی انبیاء کو قتل کرتے رہے اس آیت مبارکہ میں بھی ایک انداز سے آپ کے لیے ڈھارس کا سامان ہے اے رسول اقدس! آپ کو ایسے لوگوں پر دل گرفتہ ہونے کی بجائے اپنا کام کرتے رہنا چاہیے اگر یہ قرآن مجیدکی مخالفت اور آپ کو جھٹلاتے ہیں تو یہ ان کی فطرت ثانیہ اور جبلت قدیمہ ہے۔ مسائل : 1۔ بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا گیا کہ انبیاء پر ایمان لائیں۔ 2۔ بنی اسرائیل نے کچھ انبیاء کی تکذیب کی، اور کچھ انبیاء کو قتل کیا۔