إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
مسلمانوں اور یہودیوں اور صائبین اور نصاری میں سے جو کوئی اللہ اور آخری دن پر ایمان لائے اور نیک کام کرے تو انہیں نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (ف ١)
فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب کی روش اور کردار کو کفر قرار دینے کے بعد ایمان کے بنیادی ارکان، تقاضوں اور اس کے صلہ کا ذکر کیا گیا ہے اس حقیقت کو سورۃ البقرۃ کی آیت 62میں بیان کیا جا چکا ہے۔ اللہ کے ہاں خالی ایمان کا دعویٰ اور مذہبی فرقہ واریت کے لیبل کی کوئی حیثیت نہیں اسلام سچے عقیدے اور حسن کردار کا نام ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اسلام کے منتخب اور پسندیدہ اعمال کو اختیار کرے۔ اس میں ایمان با للہ کے بعد نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج لازم ہیں جو ان اعمال اور ان کے متعلقات کو پورا کرے گا اسے دنیا میں سکون و اطمینان اور آخرت میں کوئی خوف و غم نہیں ہوگا۔ یہاں ایمان کے باقی ارکان کا ذکر کرنے کی بجائے صرف دو ارکان کا بیان ہوا ہے۔ یعنی اللہ اور آخرت پر ایمان لانا یہ اختصار قرآن مجید کے اور مقامات میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان وہی شخص لائے گا جو نبی آخر الزماں (ﷺ) کی رسالت کو تسلیم کرے گا۔ کیونکہ آپ اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ کی رسالت کا انکار کرنے والا ایمان باللہ کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا اور آخرت میں کامل ایمان اور نیک اعمال کے بغیر نجات کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے قرآن مجید ارکان ایمان کے بارے میں بسا اوقات تفصیلات چھوڑ کر ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے ذکر پر اکتفا کرتا ہے کیونکہ جو ان کو دل کی گہرائی اور سچائی کے ساتھ مانتا ہے وہ دوسرے ارکان کا انکار نہیں کرسکتا۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں زبانی کلامی دعوؤں کی قدر نہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے والے لوگ خوف وغم سے محفوظ رہیں گے۔