قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
تو کہہ اے اہل کتاب ! تم کچھ (بھی) راہ پر نہیں ہو جب تک کہ تم توریت ، اور انجیل پر اور جو تمہارے رب سے تمہاری طرف نازل ہوا ، اس پر قائم نہ ہوجاؤ ، اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ تیرے رب سے تیری طرف اترا ہے ‘ یہ تو ان میں سے بہتوں کے درمیان شرارت اور کفر ہی بڑھائے گا ۔ سو تو کافر قوم پر افسوس نہ کر (ف ٢)
فہم القرآن : ربط کلام : دوبارہ اہل کتاب کو خطاب۔ نبی کریم (ﷺ) کو خطاب کرنے سے پہلے یہود ونصاریٰ کو مخاطب کیا جا رہا تھا۔ اس کے بعد آپ کو آپ کے عظیم منصب کے حوالے سے مخاطب کرتے ہوئے معنوی لحاظ سے تسلی دی گئی کہ یہود ونصاریٰ آپ کو الرسول تسلیم کریں یا نہ کریں آپ حقیقتاً اللہ کے رسول ہیں لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں آپ بے خوف وخطر اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے جائیں اس تسلی اور تاکید کے بعد اب خطاب کا رخ پھر اہل کتاب کی طرف پھیر دیا گیا ہے۔ اے رسول! آپ واشگاف الفاظ میں اہل کتاب کو باور کرائیں کہ تم اس وقت تک ذرہ برابر حقیقت پر نہیں ہوسکتے جب تک تورات وانجیل کے احکامات کو مانتے ہوئے قرآن مجید کی ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔ یہاں تورات وانجیل پر قائم رہنے کا جو منطقی تقاضا بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو من جانب اللہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی ہدایات اور احکامات کو مانا جائے۔ کیونکہ قرآن مجید تورات اور انجیل کے احکامات کا ضامن اور محافظ ہے۔ لہٰذا قرآن مجید پر عمل کرنا تورات اور انجیل کے احکامات کو ماننے کا تسلسل ہے۔ اسی تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے پہلے انبیاء کی تصدیق اور تائید لازم قرار پائی۔ اہل کتاب کی اکثریت کا عالم یہ ہے وہ مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر قرآن مجید کے ساتھ کفر کرتے ہوئے آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں قرآن من جانب اللہ اور نبی اکرم (ﷺ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اسی بنا پر آپ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَنَّہُ قَالَ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لاَ یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہِ إِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ) [ رواہ مسلم : باب وُجُوبِ الإِیمَانِ بِرِسَالَۃِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ (ﷺ) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میں محمد کی جان ہے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جس شخص تک میرا پیغام پہنچ جائے اور پھر وہ اسی حالت میں مرجائے اور وہ مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔“ کیونکہ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ اہل کتاب کے ایمان اور اعمال کی کوئی حیثیت نہیں۔ جب تک وہ آپ پر جو نازل ہوا اس پر ایمان نہیں لاتے۔ یہاں واضح الفاظ میں آپ (ﷺ) کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ اہل کتاب کی سرکشیوں اور نافرمانیوں پر آپ کو افسردہ اور دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے آپ اللہ کے رسول ہیں اور رسول کا کام لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ مسائل : 1۔ یہودی اور عیسائی جب تک قرآن کو نہیں مانتے وہ کسی دین پر نہیں سمجھے جا سکتے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پس پشت ڈال کر کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کو نہ ماننے والے کفرو سرکشی میں آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ 4۔ کافروں کے کفر پر غمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : یہودو نصاریٰ کی اندرونی حالت : 1۔ یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کو مرتد کہتے ہیں۔ (البقرۃ:113) 2۔ آپ (ﷺ) ان کو اکٹھا تصور کرتے ہیں حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں۔ (الحشر :14) 3۔ اللہ نے ان کے دلوں میں قیامت تک کے لیے دشمنی ڈال دی ہے۔ (المائدۃ:14)