سورة المآئدہ - آیت 48

وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تیری طرف (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہم نے سچائی سے کتاب نازل کی ہے جو اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور ان کی محافظ ہے پس تو یہودیوں کے درمیان کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم کر اور جو حق بات تیرے پاس آچکی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشوں کا مطیع نہ ہو ، اور لوگو ! تم میں سے ہر کسی کو ہم نے ایک شریعت اور ایک راہ دی ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی دین پر کردیتا لیکن وہ تمہیں اپنے دیئے ہوئے میں آزماتا ہے ، سو تم خوبیون میں سبقت لے جاؤ ، اللہ ہی کی طرف سب کو جانا ہے سو وہ تمہاری اختلافی باتوں میں تمہیں آگاہی بخشے گا (ف ١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اس آیت مبارکہ میں پہلی مرتبہ استعمال ہونے والے لفظ ﴿ الکتاب﴾ سے مراد قرآن مجید ہے۔ جو پہلی کتب آسمانی کی تائید اور تصدیق کرتا ہے اور جو کچھ ان کتابوں میں احکام بیان کیے گئے۔ وہ قرآن مجید میں محفوظ کرلیے گئے ہیں۔ ﴿مھیمن﴾ کا معنیٰ ہے کسی چیز کو ڈھانپ لینا یا اس کی حفاظت اور نگرانی کرنا کیونکہ دین کے مرکزی اور بنیادی اصول شروع سے ایک ہی رہے ہیں اس لیے وہ تمام احکام اور اصول جو پہلی کتابوں میں نازل کیے گئے اور جن کے نفاذ کا ان لوگوں کو حکم دیا گیا تھا۔ قرآن مجید ان کا امین اور ترجمان ہے۔ پہلی آیات میں تورات اور انجیل کے نفاذ کا حکم ان کے حاملین کو دیا گیا تھا۔ اب قرآن مجید کے نازل ہونے کے بعد وہ کتابیں منسوخ ہوچکی ہیں۔ البتہ ان کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق کرنی چاہیے۔ تورات اور انجیل کے بنیادی احکام جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ نبی (ﷺ) کو براہ راست ان کے بارے میں حکم دیا گیا ہے ان کا نفاذ کریں تاکہ اس شبہ کا ازالہ ہو سکے کہ ان احکام کا نفاذ پہلی امتوں کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ یہ امت ان کے نفاذ میں اتنی ہی پابند ہے جتنا پہلی امتوں کو پابند کیا گیا تھا۔ لہٰذا قرآن مجید کے نفاذ میں کسی کے منفی خیالات اور رجحانات کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ حق پہنچ چکا اور نفاذ دین کے بغیر مسلمانوں کا اجتماعی نظام مستحکم نہیں ہوسکتا اور ان کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ جس کی اہمیت کے پیش نظر براہ راست نبی (ﷺ) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ان کا من و عن نفاذ کریں اور کسی کی خواہش اور مخالفت کو خاطر میں نہ لائیں۔ فرمان کے آخر میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ ہر امت کے لیے اس کی الگ، الگ شریعت اور علیحدہ طریقہ تھا۔ یہ اس لیے نہیں تھا کہ لوگوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل تھا بلکہ مصلحت اور حکمت یہ تھی کہ لوگوں کو اس بات میں آزمایا جائے کہ وہ نئے نبی اور اس کی شریعت پر ایمان لاتے ہیں یا اپنے اپنے مذہب اور ملتوں کے ساتھ منسلک رہتے ہیں۔ اس میں یہ حکمت بھی پنہاں تھی کہ پہلی امتوں کے مزاج اور ان کے حالات کے مطابق انھیں شریعت اور اس پر عملدر آمد کا طریقہ وہی دیا جائے جس کو اپنانا ان کے لیے آسان تھا۔ جس کی اہل علم نے یہ توجیہ فرمائی ہے کہ دین ایک ہونے کے باوجود شریعتوں کا مختلف ہونا انسانی ذہن کی ارتقاء کی بنا پر کیا گیا ہے۔ لہٰذا دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ان اختلافات میں الجھنے اور اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کی بجائے نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ کار خیر میں مسابقت ہی زندہ اور بیدار قوموں کا شعار ہوا کرتا ہے۔ قرآن مجید مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کا فرمان ہے کہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔ کیونکہ جس شعبہ میں مسابقت ختم ہوجائے وہ شعبہ زندگی کی روح کھو بیٹھتا ہے اس لیے سورۃ التکاثر میں ان لوگوں کو سخت انتباہ کیا ہے جو دنیا کے لیے اس قدر ہلکان کا شکار ہوگئے کہ قبر کی دیواروں تک دنیا ہی کے پیچھے بھاگتے رہے اور اپنی آخرت کو تباہ کر بیٹھے۔ اس لیے حکم فرمایا کہ مسلمانو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ نیکی میں سبقت کرنے والے ہی اللہ کے مقرب ہوں گے۔ حقیقت آشکارا ہونے کے باوجود خواہ مخواہ اختلافات میں الجھنے والوں کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان ان کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمائیں گے۔ مسائل : 1۔ قرآن مجید منزل من اللہ ہے۔ 2۔ قرآن مجید پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ 3۔ قرآن مجید پہلی کتابوں کا نگران ہے۔ 4۔ قرآن مجید کے احکامات کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ 5۔ حق آ جانے کے بعد کسی اور کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکامات کے ذریعے لوگوں کو آزماتا ہے۔ 7۔ نیکی کے کاموں میں سبقت اختیار کرنی چاہیے۔ 8۔ سب نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ یوم قیامت لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن : قانون الٰہی کے بغیر فیصلے کرنے والے مجرم ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ نے جو کتاب آپ پر نازل کی ہے لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ:48) 2۔ جو کتاب اللہ کے بغیر اپنی مرضی سے فیصلہ کرے گا اللہ کے راستے سے بھٹک جائے گا۔ (ص :26) 3۔ قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ دینے والے فاسق ہیں۔ (المائدۃ:47) 4۔ جو قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ کافر ہے۔ (المائدۃ:44) 5۔ جو قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ کرے وہ ظالم ہے۔ (المائدۃ:45) 6۔ امت کو قرآن کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے قرآن وسنت کو چھوڑ کر دوسرے کی اتباع نہیں کرنی چاہیے (الاعراف :3)