سورة النسآء - آیت 163

إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہم نے تیری طرف ایسی وحی بھیجی ہے جیسی ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے بعد اور نبیوں اور ابراہیم (علیہ السلام) واسماعیل (علیہ السلام) اور اسحق (علیہ السلام) ویعقوب (علیہ السلام) اور اس کی اولاد اور عیسیٰ (علیہ السلام) وایوب (علیہ السلام) ویونس (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) وسلیمان (علیہ السلام) کی طرف بھیجی تھی ، اور داؤد (علیہ السلام) کو ہم نے زبور دی (ف ١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 163 سے 164) ربط کلام : دین کے جن بنیادی ارکان کا پہلے ذکر ہوا ہے۔ اسی کی تبلیغ یہ عظیم المرتبت شخصیات کرتی رہی ہیں۔ یہودیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتلایا گیا ہے کہ دین کے بنیادی احکامات ہمیشہ سے ایک تھے اور ہیں۔ وہ لوگوں پر براہ راست نازل ہونے کی بجائے وحی کے ذریعے انبیاء ( علیہ السلام) پر نازل ہوتے رہے۔ جو مختلف انداز اور الفاظ میں اتارے گئے۔ قرآن مجید تحریری مسودہ کے بجائے لوگوں کی سہولت اور اصلاح احوال کی خاطر خطاب در خطاب کی صورت میں نازل ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر خطاب میں نصیحت کے جامع پہلو کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اسی اسلوب کے پیش نظریہودیوں کے اس مطالبہ پر کہ ان پر براہ راست کتاب کیوں نہیں نازل کی جاتی اس کے جواب میں نصیحت کے کئی پہلو اختیار کیے گئے ہیں۔ 1۔ پہلے سرزنش کی گئی کہ تم موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بڑھ کر سوالات کرچکے ہو جن میں تمھارے اکثر سوال پورے ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود تم بڑے بڑے جرائم میں ملوث رہے اور اب بھی ان گناہوں کا اعتراف کرتے ہو۔ ان سے تائب ہونے کی بجائے ان پر فخر کرتے اور ان کا ارتکاب کیے جا رہے ہو۔ 2۔ کسی امت پر بھی براہ راست کتاب نازل نہیں کی گئی اللہ تعالیٰ کے احکام وحی کے ذریعے ہی انبیاء پر نازل ہوتے رہے ہیں جن اولو العزم شخصیات پر وحی نازل ہوئی ان میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے جو شان و مرتبہ اور جدوجہد کے اعتبار سے سب سے نمایاں تھے جن کی اکثریت کا تعلق تمھارے آباؤ اجداد سے ہے۔ 3۔ ان انبیاء کرام (علیہ السلام) کا دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے جس کے بنیادی اصول یہ ہیں کہ توحیدخالص پر ایمان لانا، تمام آسمانی کتب کو تسلیم کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور آخرت پر کامل یقین رکھنا ہے۔ 4۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت کا مقصد لوگوں کے اچھے اعمال کے بدلے دنیا اور آخرت کی کامیابی کی خوشخبری دینا اور برے اعمال کے برے انجام سے لوگوں کو ڈرانا تھا۔ 5۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد لوگوں کو سینہ زوری سے منوانا نہیں ان کا کام بتلانا اور سمجھانا تھا تاکہ محشر میں لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کوئی حجت باقی نہ رہے۔ 6۔ بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے تذکرے کا مقصد نبی محترم (ﷺ) کو تسلی دینا ہے۔ اس لیے آدم (علیہ السلام) سے انبیاء کا ذکر کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع کیا ہے کیونکہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی تشریف آوری سے کچھ عرصہ پہلے تک لوگ توحید اور فطرت سلیم پر قائم رہے بعد ازاں لوگ شرک میں مبتلا اور دین سے منحرف ہوگئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال بڑی جانفشانی سے جدوجہد فرمائی لیکن چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب گمراہی پر قائم رہے جنھیں طوفان نے آلیا اور وہ نیست و نابود کردیے گئے۔ ان کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان میں نسل در نسل انبیاء ( علیہ السلام) کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ جن میں ایسے انبیاء بھی تھے جو نبوت کے منصب کے ساتھ حکمران بھی تھے ان میں موسیٰ (علیہ السلام) ایسے پیغمبر (ﷺ) ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف پایا۔ ان کی شخصیت، جدوجہد اور حالات و واقعات کو نبی آخر الزماں (ﷺ) کے ساتھ مماثل قرار دیا گیا ہے (المزمل :15) ان انبیاء کے آخر اور نبی محترم (ﷺ) سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) عظیم الشان معجزات کے ساتھ تشریف لائے۔ یہ تمام کے تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری دینے والے اور اس کی نافرمانیوں سے ڈرانے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چیدہ چیدہ انبیاء کا ذکر فرمایا ہے باقی کا ذکر نہیں کیا۔ جن کے ذکر نہ کرنے کی وہی حکمت جانتا ہے اللہ تعالیٰ ہر بات اور ہر کام پر غالب ہے اور اس کے ہر فرمان اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () أَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ، وَالأَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ، أُمَّہَاتُہُمْ شَتَّی، وَدِینُہُمْ وَاحِدٌ ) [ رواہ البخاری : باب ﴿واذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہَا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ ابن مریم کے زیادہ قریب ہوں اور تمام انبیاء (علیہ السلام) علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں مختلف ہیں اور دین ایک ہی ہے۔“ مسائل : 1۔ نبی اکرم (ﷺ) پر پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) ہی کی طرح وحی نازل ہوئی۔ 2۔ قرآن کی طرح پہلے انبیاء (علیہ السلام) پر بھی کتابیں نازل کی گئیں۔ 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے از خود کلام فرمایا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (ﷺ) کو کچھ انبیاء (علیہ السلام) کے واقعات بیان فرمائے اور کچھ کا ذکر نہیں فرمایا۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء (علیہ السلام) کا اجتماعی ذکر : 1۔ اٹھارہ انبیاء کرام کا ذکر۔ (الانعام : 83تا90) 2۔ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیاء ( علیہ السلام)۔ (البقرۃ:136) 3۔ نبی محترم (ﷺ) کا ذکر گرامی ( آل عمران : اور احزاب : 144، محمد : 2، الفتح : 29) موسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ و مقام : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے براہ راست کلام کیا۔ (النساء :164) 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دو عظیم معجزے عطا فرمائے۔ (طٰہٰ: 17تا22) 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو برتری عطا فرمائی۔ (الاعراف :144) 4۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہود کے الزام سے پاک کیا۔ (الاحزاب :69) 5۔ موسیٰ اور نبی کریم (ﷺ) کے درمیان مماثلت قرار دی گئی۔ (المزمل :15) 6۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو نشانیاں عطا فرمائیں۔ (بنی اسرائیل :101)