وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِيثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور ان سے اقرار لینے میں ہم نے انکے اوپر کوہ طور اٹھایا اور ان سے کہا کہ دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور کہا کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو اور ہم نے ان سے پختہ وعدہ لیا ۔ (ف ١)
فہم القرآن : (آیت 154 سے 155) ربط کلام : یہودی نبی (ﷺ) کی نبوت پر ہی اعتراض اور سوال نہیں کرتے بلکہ انھوں نے ہر نبی کی ذات پر الزامات لگائے اور اس کی نبوت پر اعتراض کیے۔ ایسا کرنا ان کی پرانی عادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو براہ راست دیکھنے کا مطالبہ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی چند دنوں کی غیر حاضری پر بچھڑے کو معبود بنانا اور بعدازاں اللہ تعالیٰ نے ان کے سروں پر کوہ طور منڈلاکر اس بات کا عہد لیا کہ آئندہ تورات کے احکامات پر سختی کیساتھ عمل کرتے رہوگے۔ یہاں اہل کتاب سے مراد صرف یہودی ہیں جو کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے پختہ اقرار کرنے کے باوجود اپنے عہد سے منحرف ہوگئے فتح ایلیاء یعنی بیت المقدس کی کامیابی کے وقت انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ تم اللہ کے حضور سجدہ کرتے اور معافی مانگتے ہوئے شہر کے دروازے میں داخل ہونا۔ لیکن انھوں نے نہ صرف استکبار اور جور واستبداد کا مظاہرہ کیا بلکہ سرے سے ہی فرمان الٰہی حِطَّۃٌ کو حِنْطَۃٌ میں تبدیل کردیا، جب انہیں ہفتہ کے دن میں عبادت کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے مچھلیاں پکڑنے کے لیے حیلہ بازی سے کام لیا۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی آیات کا مسلسل انکار کرنے اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کو ناحق قتل کرنے کے سنگین جرم میں ملوث ہوئے، جب انہیں ان جرائم سے باز رہنے کی تلقین کی جاتی تو دنیاوی مفادات کے حصول اور طبعی رعونت کی بنا پر انبیاء اور صالحین کو جواب دیتے کہ ہمیں تمہاری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں جسکا دوسرا معنی یہ تھا کہ تم جس قدر چاہو ہمیں سمجھاؤ۔ ہم اپنی ضد سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ اس طرح حق کے مقابلہ میں تعصب کی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ جس تعصب اور رعونت پر وہ فخر کرتے تھے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے غضب کا نتیجہ تھا۔ جس وجہ سے ان کے دلوں پر کفر کی مہریں ثبت کردی گئیں ا سی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام جیسی پاکدامنہ خاتون پر بد کاری کا سنگین الزام عائد کیا اور اب تک یہودی ایسی یاوا گوئی کرتے ہیں۔ اسی لیے یہودیوں میں بہت کم لوگ اسلام قبول کرتے ہیں۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ 2۔ بنی اسرائیل عہد شکن قوم ہے۔ 3۔ یہودی انبیاء کے قاتل ہیں۔ 4۔ آدمی کی بار بار سرکشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہی رفعت عطا کرنے والا ہے : 1۔ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا۔ (الرعد :2) 2۔ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی۔ (الانعام :166) 3۔ ہم نے حضرت ادریس کو اعلیٰ مقام پر اٹھایا۔ (مریم :57) 4۔ اللہ ہی درجات بلند کرنے والا ہے۔ (الانعام :83) 5۔ اللہ نے اہل علم کے درجات کو بلند فرمایا ہے۔ (المجادلۃ :11) 6۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔ (النساء :158) 7۔ نیک عمل اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوتے ہیں۔ (الفاطر :10)