سورة الكوثر - آیت 1

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(اے نبی ! ) ہم نے تجھے کوثر دی

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط سورت : الماعون میں اس شخص کی مذمت کی گئی ہے جو نماز سے لاپرواہی کرتا ہے اور ضرورت مند کو استعمال کے لیے معمولی چیز بھی نہیں دیتا الکوثر میں نبی (ﷺ) کو خوشخبری دے کر ہر شخص بالخصوص بخیل آدمی کو بتلایا گیا ہے کہ دنیا اور آخرت کی خیر کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ الکوثر کا شان نزول بیان کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ مکہ میں نبی (ﷺ) کے دوسرے بیٹے عبداللہ جن کو طاہر اور طیب بھی کہا جاتا ہے فوت ہوگئے اس کی موت پر ابولہب اور اس کے ساتھیوں نے انتہائی کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی اور کہا ” بَتِرَ مُحَمَّدٌ ھٰذِہِ الَّلیْلَۃَ“ کہ آج رات محمد دم کٹا ہوگیا ہے لہٰذا تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ جب خود فوت ہوگا تو اس کا نام اور کام بھی مٹ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر آپ (ﷺ) کو تسلی دینے کے ساتھ خوشخبری سنائی کہ ہم نے آپ کو الکوثر سے سرفراز کیا ہے، آپ نہیں بلکہ آپ کا دشمن ہی دم کٹا ہوگا۔ آپ اپنے رب کے حضور نماز پڑھتے رہیں اور اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کریں۔ الکوثر کے نزول سے پہلے رب کریم نے رات اور صبح روشن کی قسم اٹھا کر نبی (ﷺ) کو فرمایا کہ آپ کو آپ کا رب اس قدر عطا فرمائے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے۔ (الضّحیٰ: 1تا5) پھر یہ خوشخبری دی گئی کہ ہم نے اس دعوت کے لیے آپ کا سینہ کھول دیا ہے اور آپ کا بوجھ ہلکا کردیا ہے اور ہم نے آپ کے نام اور کام کو سربلند کردیا ہے۔ (الانشراح : 1تا4) اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کو خیر کثیر کے ساتھ ذکر فرما کر نبی (ﷺ) کو تسلی اور خوشخبری عطا فرمائی ہے کہ ہم نے یقیناً آپ کو الکوثر عطا فرما دی ہے۔ الکوثر کا لفظ کثرت سے نکلا ہے اس لیے مفسرین نے اپنی اپنی لیاقت کے مطابق الکوثر کے مختلف مفہوم بیان کیے ہیں۔ لیکن سب سے جامع مفہوم مفسّرِ قرآن عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان فرمایا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّہُ قَالَ فِی الْکَوْثَرِ ہُوَ الْخَیْرُ الَّذِی أَعْطَاہ اللَّہُ إِیَّاہُ قَالَ أَبُو بِشْرٍ قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فَإِنَّ النَّاسَ یَزْعُمُونَ أَنَّہُ نَہَرٌ فِی الْجَنَّۃِ فَقَالَ سَعِیدٌ النَّہَرُ الَّذِی فِی الْجَنَّۃِ مِنَ الْخَیْرِ الَّذِی أَعْطَاہ اللَّہُ إِیَّاہُ) (رواہ البخاری : باب سورۃ إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرِ) ” حضرت سعید بن جبیر، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کوثر کے بارے میں فرمایا یہ ایسی بھلائی ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف نبی (ﷺ) کو ہی عطا کی ہے۔ (یعنی دنیا اور آخرت کی جو بھلائی آپ کو عطا کی گئی وہ کسی کو عطا نہیں ہوئی۔) اس مختصر سورت میں آپ (ﷺ) کو خیر کثیر کی خوشخبری سنانے کے ساتھ یہ بھی بتلا دیا گیا کہ آپ کودم کٹا کہنے والے ہی بے نام ونشان ہوجائیں گے۔ لوگوں نے اب تک اس حقیقت کو کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ لیا ہے اور قیامت تک دیکھتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کے کام اور نام کو کس قدر قبولیت عامہ اور خیر وبرکت کے ساتھ دوام بخشا ہے انشاء اللہ قیامت تک آپ کا نام اور کام بلند سے بلند تر ہوتا جائے گا۔ لیکن آپ کے دشمن ابولہب اور ابوجہل کا اچھے طریقے سے نام لینے والا کوئی دکھائی اور سنائی نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف آپ کے نام اور کام کو ہی شہرت دوام نہیں بخشی بلکہ آپ کے ساتھیوں کے نام اور کام کو بھی نیک نامی اور شہرت دوام کا شرف بخشا ہے۔ اس سورۃ مبارکہ میں آپ (ﷺ) کو الکوثر عطا فرمانے کے بعد حکم ہوا کہ آپ اپنے رب کے حضور نماز پڑھا کریں اور اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کریں۔ اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ ایک داعی کو مخالفوں کے مذموم پراپیگنڈہ پر توجہ دینے کی بجائے اپنے رب کے ساتھ رابطہ مضبوط رکھنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے کا مؤثر اور قریب ترین ذریعہ نماز ہے، اسے صحیح طریقے سے ادا کیا جائے تو آدمی کا دکھ فوری طور پر ہلکا ہوجاتا ہے۔” النحر“ اونٹ کی قربانی کو بھی کہتے ہیں لیکن اس میں یہ مفہوم لینے کی گنجائش ہے کہ دعوت کا راستہ قربانی مانگتا ہے اس لیے دعوت کا کام کرنے والے کو ہر وقت قربانی پیش کرنے کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ نماز میں انسان کا اپنے رب کے ساتھ رابطہ مضبوط ہوتا ہے اور قربانی کرنے سے انسان میں جدوجہد کا جذبہ پیدا ہوتا اور لوگوں میں اس کا احترام بڑھتا ہے۔ اس کے صلے میں آخرت میں حوض کوثر کا پانی نصیب ہوگا اور دنیا میں اس کا دشمن ناکام ہوجائے گا۔ الکوثر : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ لَمَّا عُرِجَ بالنَّبِیِّ () إِلَی السَّمَاءِ قَالَ أَتَیْتُ عَلَی نَہَرٍ حَافَتَاہُ قِبَاب اللُّؤْلُؤِ مُجَوَّفًا فَقُلْتُ مَا ہَذَا یَا جِبْرِیلُ قَالَ ہَذَا الْکَوْثَرُ) (رواہ البخاری : باب سورۃ ﴿إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرِ﴾) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم (ﷺ) کو معراج کرائی گئی، آپ فرماتے ہیں کہ میرا گزر ایک نہر کے پاس سے ہوا جس کے دو کناروں کو لؤلؤ کے موتیوں کے ساتھ مزین کیا گیا ہے میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ کوثر ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () الْکَوْثَرُ نَہْرٌ فِی الْجَنَّۃِ حَافَّتَاہُ مِنْ ذَہَبٍ وَمَجْرَاہُ عَلَی الدُّرِّ وَالْیَاقُوتِ تُرْبَتُہُ أَطْیَبُ مِنَ الْمِسْکِ وَمَاؤُہُ أَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ وَأَبْیَضُ مِنَ الثَّلْجِ) (رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّکَاثُرِ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : کہ کوثر جنت کی ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں۔ اس کا فرش یاقوت سے بنا ہوا ہے۔ اس کی مٹی کستوری سے زیادہ خوشبودار ہے، اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ شفاف ہے۔“ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ () إِنِّی فَرَطُکُمْ عَلٰی الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَیَّ شَرِبَ وَمَنْ شَرِبَ لَمْ یَظْمَأْ أَبَدًا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق باب الحوض) ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا : میں تمھارا حوض کوثر پر انتظار کروں گا جو بھی میرے پاس آئے گا وہ اس سے پانی پیئے گا اور جو اس سے ایک مرتبہ پیے گا وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا۔“ (عَنْ أَبِی ذَر (رض) قَال قالَ رَسُول اللَّہِ ()۔۔ مَاؤُہُ أَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ) (صحیح مسلم، بَابُ إِثْبَاتِ حَوْضِ نَبِیِّنَا () وَصِفَاتِہِ) حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :۔۔۔ حوض کوثر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو دنیا اور آخرت کی خیر کثیر کے ساتھ سرفراز فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو حوض کوثر عطا فرمایا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کے دشمن کو ذلیل اور دم کٹا بنا دیا۔ 4۔ ہر مسلمان کو اپنے رب کے حضور نماز پڑھنی اور اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: ” اللہ“ کے نبی (ﷺ) کی ذات اقدس پر انعامات کی ایک جھلک : 1۔ آپ (ﷺ) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف :185) 2۔ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء :107) 3۔ آپ (ﷺ) کو خاتم النبیین بنایا گیا ہے۔ (الاحزاب :40) 4۔ آپ (ﷺ) کو پوری دنیا کے لیے داعی، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : 45، 46) 5۔ نبی کریم (ﷺ) کو تمام انسانوں کے لیے ر ؤف، رحیم بنایا گیا ہے۔ (التوبہ :128) 6۔ آپ (ﷺ) کی بعثت کو مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم قرار دیا گیا ہے۔ (آل عمران :164)