أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ
کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا
فہم القرآن: (آیت 1 سے 5) ربط سورت : سورۃ الہمزہ میں آخرت میں ظالموں کی سزا بیان کی گئی ہے الفیل میں یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو آخرت میں ہی نہیں بلکہ کچھ لوگوں کو دنیا میں بھی سزا دیتا ہے جس کی مثال سورۃ الفیل میں بیان کی گئی ہے۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) کی ولادت باسعادت سے پچاس دن پہلے کا واقعہ ہے کہ حبشہ کے حکمران ابرہہ نے ساٹھ ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف پیش قدمی کی اس کے لشکر میں دس بارہ ہاتھی بھی تھے۔ ابرہہ خود محمود نامی دیوہیکل ہاتھی پر سوار تھا۔ عربوں نے اس سے پہلے ہاتھی نہیں دیکھے تھے اس لیے عرب اس واقعہ کو اصحاب الفیل کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اہل تاریخ نے مکہ پر ابرہہ کی جارحیت کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ اس نے یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک عالیشان کلیسا تیار کروایا اور لوگوں میں اعلان کیا کہ وہ بیت اللہ کی بجائے کلیسا کی زیارت اور حج کیا کریں لیکن لوگ کلیسا کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ ابرہہ کی مہم جاری تھی کہ کسی آدمی نے کلیسا میں غلاظت پھینک دی، بعض کا خیال ہے کہ غلاظت کی بجائے کسی نے کلیسا کو آگ لگا دی۔ ابرہہ اس حرکت پر طیش میں آیا جس وجہ سے اس نے بیت اللہ کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا، اور ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر مکہ معظمہ کی طرف بڑھا۔ راستے میں کچھ قبائل نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن ابرہہ کے لشکر کا مقابلہ نہ کرسکے، کچھ قبائل نے اپنے بتوں کی حفاظت کی خاطر ابرہہ کی حمایت کی۔ ابرہہ کا لشکر منٰی اور مزدلفہ کے درمیان پہنچ گیا جسے و ادی محسّر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حکم ہے کہ جب حجاج کرام اس وادی سے گزریں تو انہیں تیزروی سے گزر جانا چاہیے۔ (رواہ الترمذی : بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ عَرَفَۃَ کُلَّہَا مَوْقِفٌ) ابرہہ کی فوج کو دیکھ کر قریش کے لوگوں نے مکہ خالی کردیا اور پہاڑوں میں رو پوش ہوگئے۔ مکہ سے نکلتے وقت قریش کے لوگوں نے بتوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ بیت اللہ کی حفاظت کے لیے دعا کی۔ دعا کرنے والوں میں سردار عبدالمطلب بھی شامل تھے اسی دوران ابرہہ کی فوج نے سردار عبد المطلب کے دوسواونٹ پکڑلیے سردار عبد المطلب کو اپنے اونٹوں کا پتہ چلا تو وہ ابرہہ کے پاس گئے ابرہہ ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا، اس نے آگے بڑھ کر پوچھا کہ آپ کس لیے تشریف لائے ہیں۔ سردار عبدالمطلب نے اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا جس پر اس نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا میرا خیال تھا کہ آپ بیت اللہ کے تحفظ کی درخواست کریں گے لیکن آپ اپنے اونٹوں کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس پر سردار عبدالمطلب نے فرمایا اونٹ میرے ہیں اس لیے میں ان کی واپسی کا مطالبہ کرتاہوں۔ کعبہ اللہ کا گھر ہے وہ اس کی خود حفاظت کرے گا۔ ابرہہ نے متکبرانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ اپنے اونٹ واپس لے جائیں ! کل دیکھوں گا کہ میرے مقابلے میں کون آتا ہے اگلے دن اس نے فوج کو بیت اللہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا ابھی فوج حرکت میں آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجے جنہوں نے اپنی چونچوں اور پروں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھامی ہوئی تھیں، دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ابرہہ اور اس کے لشکر پر کنکریاں پھینکنا شروع کیں، جس فوجی پر کنکری پڑتی وہ کھجلی کرتا اور اس کے جسم سے خون بہنے لگتایہاں تک کہ اس کے جسم کے لوتھڑے گرنے شروع ہوجاتے۔ اس حالت میں لشکر کے لوگ ایک دوسرے کو روندتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے اور ابرہہ بھی یمن کی سرحد کے قریب جا کر ذلت کی موت مرا۔ یاد رہے کہ قرآن مجید کے کئی مقامات پر ” اَلَمْ تَرَ“ کے الفاظ ” اَلَمْ تَعْلَمْ“ کے معنٰی میں استعمال ہوئے ہیں جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید نے ایک مقام پر انسان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔ ” کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ واضح طور پر جھگڑالو بن جاتا ہے۔“ (یٰس :77) غور فرمائیں کہ کون ایسا انسان ہے جو نطفہ سے پیدا ہوتے ہوئے خود کو دیکھتا ہے۔ لہٰذا یہاں ” اَلَمْ تَرَ“ کا معنٰی ” اَلَمْ تَعْلَمْ“ ہے۔ یہاں تمام عربوں بالخصوص اہل مکہ کو مخاطب کیا گیا ہے کہ کیا یہ نہیں جانتے کہ آپ کے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ بتلانا یہ مقصود ہے کہ ابھی تھوڑے عرصے کی بات ہے کہ تمہارے سامنے ابرہہ اور اس کے لشکر کو اس لیے تہس نہس کیا گیا کہ وہ اللہ کے گھر کو مٹانے کے لیے آیا تھا لہٰذا تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو رب اپنے گھر کے تحفظ کے لیے ابرہہ اور اس کے ساتھیوں کو تہس نہس کرسکتا ہے کیا وہ اپنے رسول اور دین کی مدد نہیں کرے گا؟ گویا کہ ایک طرف اہل مکہ کو متنبہ کیا اور دوسری طرف نبی (ﷺ) اور آپ کے اصحاب کو تسلی دی گئی ہے کہ فکر نہ کریں عنقریب یہ لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ یادرہے کہ اس زمانے میں ابھی سینکڑوں لوگ زندہ تھے جن کے سامنے ابرہہ اور اس کا لشکر تباہ ہوا تھا کیونکہ اس سورت کے نزول کے وقت اس واقعہ کو زیادہ سے زیادہ پچاس سال گزرے تھے۔ اس لیے ہر کسی کو معلوم تھا کہ ابرہہ اور اس کا لشکر کس طرح تباہ ہوا تھا۔ اس بنا پر ﴿اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّک بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ﴾کے الفاظ استعمال فرما کر اہل مکہ کو انتباہ کیا گیا کہ نبی کریم (ﷺ) کی مخالفت سے باز آجاؤ ورنہ تمہارا حشر بھی ابرہہ اور اس کے ساتھیوں جیسا ہوگا۔ چنانچہ ٹھیک کچھ عرصہ بعد بدر میں کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں قریش مکہ کا وہی حشر ہوا جو ابرہہ اور اس کے ساتھیوں کا ہوا تھا۔ قرآن مجید نے اسی واقعہ کو مختصر الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ کیا اس نے ان کی تدبیر کو بے کار نہیں بنایا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجے جو ان پر سنگ باری کرتے تھے اور انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔ بھوسے کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ ایک طرف چھوٹے چھوٹے پرندوں نے سنگ باری کرکے ان کا کچومبر نکال دیا اور دوسری طرف گھوڑ سوار اور ہاتھیوں نے ایک دوسرے کو اس طرح کچلا جس طرح چوپائے سیر ہونے کے بعد بھوسے کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔ قرآن مجید نے ابرہہ کی جارحیت کے لیے ” کَیْدَ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ حالانکہ ” کَیْدَ“ کا لفظ عام طور پر خفیہ تدبیر یا سازش کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کے مفسرین نے درج ذیل مفہوم ذکر کیے ہیں۔ 1۔ ابرہہ نے عربوں کے تجارتی راستوں پر قبضہ کرنے کے لیے کلیسا کی توہین کا بہانہ بنایاتھا۔ 2۔ مکہ کے لوگ حرمت والے مہینوں میں لڑائی سے بچتے تھے اس لیے ابرہہ نے مکہ پر حرمت والے مہینے میں حملہ کیا تاکہ مکہ والے مقابلہ نہیں کریں گے اس طرح کسی مزاحمت کے بغیر ہم مکہ پر قابض ہوجائیں گیلیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ذلّت کی موت سے دوچار کیا۔ 3۔ بعض مفسرین کے نزدیک ابرہہ نے قربانی کے دن مکہ پر پیش قدمی کی تاکہ قربانی کی مصروفیت کی وجہ سے مکہ والے اپنا دفاع نہ کرسکیں۔ عربی کی مشہور لغت المنجد کے مطابق ” ابابیل“ کا معنٰی غول، گروہ اور جھنڈ ہے۔ یہ کسی پرندے کا نام نہیں ہے۔ حضرت زبیر بن العوام (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ قریش نے اس واقعہ کے بعد دس سال تک ” اللہ“ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی۔ (الفتح الکبیر فی ضم الزیادہ : باب الفاء) مسائل: 1۔ ہر شخص کو اصحاب الفیل کے واقعہ پر غور کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کے اقدام کو بری طرح ناکام کردیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے ذلت کی موت مارا۔ 4۔ چھوٹے پرندوں نے اصحاب الفیل کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔