وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًا
اور جو کچھ زمین آسمان میں ہے اللہ ہی کا ہے اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان کو اور تم کو ہم نے وصیت کی ہے کہ اللہ سے ڈرو ۔ اور جو کافر ہوجاؤ تو جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے خدا کا ہے اور خدا بےپروا قابل تعریف ہے ۔ (ف ١)
فہم القرآن : (آیت 131 سے 132) ربط کلام : پچھلی آیت میں دونوں کو تسلی دی تھی۔ یہاں فرمایا کہ میاں بیوی اور زمین و آسمان اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے۔ وہ سب کا رازق اور وارث ہے۔ البتہ اس کا تمہیں اور سب لوگوں کو یہی حکم تھا اور ہے کہ ظلم و زیادتی اور اللہ کی نافرمانی سے بچ کر رہنا۔ یہاں مزید تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک گھر آباد نہیں رہا تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا مالک ہے وہ تمہارے لیے کسی اور گھر کا انتظام کر دے گا۔ یہی ہدایات ان لوگوں کو دی گئیں جنہیں تم سے پہلے تورات، انجیل، زبور اور آسمانی کتابیں دی گئیں تھیں۔ تمہیں بھی یہی نصیحت کی جاتی ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اگر تم کفر، نافرمانی اور آپس میں ظلم وزیادتی کا رویہ اختیار کرو گے تو اللہ کی بادشاہی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔ آسمانوں کا چپہ چپہ اور زمین کا ذرہ ذرہ اسی کے زیر اقتدار ہے اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد و ستائش کے لائق ہے کیونکہ کسی گھر کا اجڑنا اور خاندان کا بکھرنا معمولی بات نہیں لہٰذا بار بار اللہ تعالیٰ اپنی بادشاہی اور اختیارات کا ذکر فرما کر دونوں کو ایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے باز رہنے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے کی تلقین فرما رہا ہے تاکہ میاں بیوی اپنے معاملات درست رکھنے کی کوشش کریں۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) أَنَّ رَجُلًا جَاءَ ہُ فَقَالَ أَوْصِنِیْ فَقَالَ سَأَلْتَ عَمَّا سَأَلْتُ عَنْہُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) مِنْ قَبْلِکَ أُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَإِنَّہٗ رَأْسُ کُلِّ شَیْءٍ۔۔) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا مجھے نصیحت کیجئے انہوں نے کہا تو نے مجھ سے اس چیز کا سوال کیا ہے جس کے متعلق میں نے تجھ سے پہلے رسول اللہ (ﷺ) سے سوال کیا تھا۔ میں تجھے اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتاہوں کیونکہ تقویٰ ہر خیر کا سرچشمہ ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) عَنْ أَکْثَرِ مَایُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّۃَ قَالَ تَقْوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ) [ رواہ الترمذی : کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی حسن الخلق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) سے کثرت کے ساتھ لوگوں کو جنت میں داخل کرنے والے عمل کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ کا ڈر اور اچھا اخلاق۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اور مسلمانوں کو تقوٰی کی وصیّت فرمائی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا مالک اور ہر چیز کا کار ساز ہے۔ تفسیر بالقرآن : قرآن کے چندوصایا کا ذکر : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام)، حضرت ابراہیم (علیہ السلام)‘ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ( علیہ السلام) کو وصیّت۔ (الشوری :13) 2۔ شرک نہ کرنے اور والدین کے ساتھ احسان کرنے کی وصیّت۔ (الانعام :151) 3۔ یتیموں کے مال اور ماپ تول پورا کرنے کی وصیّت۔ (الانعام :152) 4۔ صراط مستقیم پر چلنے کی وصیّت۔ (الانعام :153) 5۔ والدین سے احسان کرنے کی وصیّت۔ (العنکبوت : 8، لقمان : 14، الاحقاف :15) 6۔ اہل کتاب اور مسلمانوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیّت۔ (النساء :131) 7۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلوٰۃ و زکوٰۃ کی وصیّت۔ (مریم :13) 8۔ وراثت کی تقسیم کے بارے میں وصیّت۔ (النساء :11) 9۔ وارثوں کو تکلیف نہ دینے کی وصیّت۔ (النساء :12) 10۔ جانوروں کی حلّت و حرمت کے بارے میں وصیّت۔ (الانعام :144)