سورة المطففين - آیت 1

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کم دینے والوں کی خرابی ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 6) ربط سورت : سورۃ الانفطار اس بات پر ختم ہوئی کہ قیامت کے دن نیکوں اور بروں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا اور اس دن پورے کا پورا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہوگا۔ قیامت کو جھٹلانے والا شخص نہ صرف اپنے رب سے منہ موڑتا ہے بلکہ وہ لوگوں کے ساتھ بے مروتی بھی اختیار کرتا ہے اور اسی بے مروتی کی وجہ سے لوگوں کے حقوق مارتا ہے۔ اس لیے ” اَلْمُطَفِّفِیْنَ“ کے آغاز میں ماپ تول کے ذریعے لوگوں کے حقوق مارنے سے منع کیا گیا ہے۔ ” تطفیف“ کا معنٰی ہے ناپ تول میں کمی بیشی کرنا۔ جب انسان اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجائے اور اس کی حرص حد سے بڑھ جائے تو وہ کمینگی پر اتر آتا ہے۔ کسی انسان کی کمینگی اور حرص کی انتہا یہ ہے کہ وہ لیتے ہوئے ماپ تول میں زیادہ لے اور دیتے ہوئے اس میں کمی کرے یہ بدترین قسم کا معاشی استحاصل ہے اس سے نہ صرف معیشت عدم توازن کا شکار ہوتی ہے بلکہ اس سے آپس میں شدید نفرتیں پیدا ہوتی ہیں اور نفرت باہمی جنگ و جدال کا سبب بنتی ہے اس لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا تھا۔ ” اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ، تول میں کمی نہ کرو۔ بے شک میں تمہیں خوشحال دیکھتا ہوں اور بے شک میں تمہارے بارے میں ایک ہمہ گیر عذاب سے ڈرتا ہوں۔ اے میری قوم ! انصاف کے ساتھ ماپ تول پورا رکھو۔ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں دنگا و فساد نہ مچاؤ۔“ (ھود : 84، 85) ماپ تول میں کمی یا بیشی کرنے والا شخص عملاً قیامت کے دن کا انکاری ہوتا ہے، ایسا شخص نہ صرف آخرت میں سزا پائے گا بلکہ بالآخر دنیا میں بھی ذلیل ہوگا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ کیا لوگ نہیں جانتے کہ انہیں ایک بڑے دن سے واسطہ پڑے گا۔ جس دن ہر شخص کو رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونا ہے وہاں یہ شخص اپنے رب اور لوگوں کو کیا منہ دکھائے گا۔ قیامت کے دن کو اس لیے عظیم کہا گیا ہے کیونکہ یہ دن اپنی طوالت کے لحاظ سے پچاس ہزار سال کا ہوگا، اس میں تمام جن وانس کے درمیان فیصلے کیے جائیں گے اور اس دن سب بڑی عدالت قائم ہوگی، اور یہ اپنی ہیبت کے اعتبار سے بڑا بھاری ہوگا۔ ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَاب اللّٰہِ شَدِیْدٌ﴾ (الحج : 1، 2) ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑا ہولناک ہے، اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو پھینک دے گی ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور لوگ تمہیں مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہوگا۔“ (مَا طَفِفَ قَوْمُ الْمِیْزَانَ إلَّا أخَذَہُمُ اللّٰہُ بالسِّنِیْنَ) (السلسلۃ الصحیحۃ البانی :107) ” جو بھی قوم تولنے میں کمی کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی مسلط فرما دیتا ہے۔“ مسائل: 1۔ ماپ، تول میں کمی، بیشی کرنے والے کے لیے دنیا میں تباہی اور آخرت میں جہنم ہے۔ 2۔ ماپ، تول میں کمی بیشی کرنے والے کا قیامت پر یقین نہیں ہوتا۔ 3۔ قیامت کا دن اپنی طوالت اور سختی کے لحاظ سے بہت بڑا ہوگا۔ 4۔ قیامت کے دن ہر شخص کو رب العالمین کے حضور کھڑا کیا جائے گا۔ تفسیربالقرآن : ماپ، تول میں کمی، بیشی کرنے کا گناہ اور اس کی سزا : 1۔ ماپ کو پورا کرو اور سیدھے ترازو سے تولو۔ (بنی اسرائیل :35) 2۔ ماپ تول انصاف کے ساتھ کیا کرو۔ (الانعام :152) 3۔ ماپ تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔ (الاعراف :85) (الشعراء :182) (ھود :85)