سورة النسآء - آیت 91

سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اب تم ایک دوسری قوم کو پاؤ گے کہ وہ تم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں ان کا یہ حال ہے کہ جب وہ فساد کرنے کے لئے بلائے جاتے ہیں تو اس ہنگامہ میں الٹ پڑتے ہیں پس اگر وہ تم سے کنارہ کش نہ ہوں اور تم سے صلح کا پیغام نہ ڈالیں اور اپنے ہاتھ تم سے نہ روکیں تو ان کو پکڑو اور جہاں کہیں پاؤ قتل کرو ، اور یہی لوگ ہیں کہ ہم نے ان پر تمہیں ظاہر غلبہ دیا ہے ۔ (ف ١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ پہلے امن پسند کفار سے لڑنے کی ممانعت فرمائی تھی اب شر پسندوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ البتہ تم ایسے منافق اور دغا باز لوگ ضرور پاؤ گے جو تم سے اور تمہارے دشمنوں سے امن میں رہنے کے نام نہاد دعوے دار ہیں۔ لیکن جونہی کوئی فتنہ اٹھتا ہے تو اس میں کود پڑتے ہیں اگر یہ لوگ تمہاری طرف صلح کا ہاتھ نہ بڑھائیں اور تم سے جنگ کرنے سے اجتناب نہ کریں تو انہیں جنگ کے دوران جہاں پکڑو مارو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی منافقت اور غداری کی وجہ سے تمہارے لیے ان کو قتل کرنے کی واضح حجت بنا دی ہے۔ مسائل : 1۔ عہد شکنی کرنے والے کے ساتھ لڑنا جائز ہے۔ 2۔ نہ لڑنے والوں سے لڑنا درست نہیں۔ تفسیر بالقرآن : جہاد کی حدود : 1۔ کفار مسلمانوں کو اذیت دیں تو انکے خلاف جہاد کرو۔ (النساء :75) 2۔ خوف دور کرنے کے لیے جہاد کرنا چاہیے۔ (النساء :84) 3۔ عہد شکن اور دغا باز لوگوں سے لڑنے کی اجازت ہے۔ (الانفال : 56، 57) 4۔ حرمت کے مہینوں میں صرف بدلے کے لیے لڑناجائز ہے۔ (البقرۃ:217) 5۔ خیانت کا اندیشہ ہو تو انہیں آگاہ کر کے عہد توڑ دو۔ (الانفال :58) 6۔ نہ لڑنے والوں سے لڑنا درست نہیں۔ (النساء :91) 7۔ اللہ اور رسول کے منکرین اور حرام کو حلال کرنے والوں سے جہاد کرو۔ (التوبۃ:29)