أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىٰ
کیا وہ منی کی ایک بوند نہ تھا جو ٹپکی ؟
فہم القرآن: (آیت 37 سے 40) ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والے کے لیے اس کے وجود سے قیامت کی دلیل۔ قرآن مجید نے موت کے بعد زندہ ہونے کو جن دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے ان دلائل میں ایک بڑی دلیل انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہے۔ جو شخص قیامت کے دن زندہ ہونے کا انکار کرتا ہے کیا وہ یہ نہیں سوچتاکہ وہ منی کے ایک قطرہ تھا۔ جو رحم مادر میں ٹپکایا گیا اللہ تعالیٰ نے پھر اسے لوتھڑا بنایا پھر اسے انسانی شکل میں ڈھالا پھر اسے مرد یا عورت کی قسم میں تبدیل فرمایا۔ کیا اب اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کرے ؟ کیوں نہیں ! وہ اس بات پر پوری طرح قادر ہے کہ وہ مردوں کو زندہ فرما کر اپنی بارگاہ میں پیش کرے اور یہ کام ہر صورت ہو کر رہے گا۔ انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا جو بے حرکت تھی اس بے حرکت مٹی سے اللہ تعالیٰ نے حسین وجمیل اور چلتا پھرتا انسان پیدا فرما دیا۔ ہر انسان اپنی تخلیق پر غور کرے کہ جس جرثومے سے پیدا کیا گیا ہے وہ ایک بے جان سی چیز ہوتا ہے، اور یہ جرثومہ اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ سوائے خاص قسم کی دوربین اسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہی اس جرثومے میں روح پیدا کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس میں روح نہ ڈالے تو وہ مردہ ہی ہوتا ہے۔ جو اللہ اس مردہ جرثومے سے زندہ بچہ یا بچی پیدا کرتا ہے کیا وہ مردہ ہڈیوں سے قیامت کے دن انسان کو پیدا نہیں کرسکتا؟ اس کا ارشاد ہے کہ میرے لیے دوسری مرتبہ پیدا کرناپہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ (الروم :27) ” لوگو ! اگر تمہیں زندگی کے بعد موت کے بارے میں شک ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت سے جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی۔ تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں کہ ہم جس نطفے کو چاہتے ہیں ایک خاص وقت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں تاکہ انسان جوان ہوجا اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلالیا جاتا ہے اور کوئی ناکارہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد سب کچھ بھول جائے تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ہوتی ہے پھر ہم نے اس پر بارش برسائی کہ یکایک وہ ابھری اور پھول گئی اور اس نے ہرقسم کی خوش نما نباتات اگلنی شروع کردی۔“ (الحج :5) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض) قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ۔۔) (رواہ البخاری : باب ذکر الملائکۃ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول مکرم (ﷺ) نے بیان فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے پھر جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم ہوتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (ﷺ) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی اور قیامت کے دن دمچی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔“ (رواہ البخاری : باب (یوم ینفخ فی الصور فتأتون أفواجا) زمرا) مسائل: 1۔ انسان منی کے ایک قطرے سے پیدا ہوتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ منی کے قطرے سے انسان کا وجود اور جوڑ بناتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم مادر میں بچہ یا بچی پیدا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: تخلیق انسانی کے مختلف مراحل : 1۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون 12) 2۔ ” اللہ“ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران :59) 3۔ حواکو آدم سے پیدا کیا۔ (النساء :1) 4۔” اللہ“ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ (النحل :4) 5۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر :2)