سورة القيامة - آیت 16

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تو قرآن پڑھنے میں اپنی زبان تیزنہ چلا نہ اس طرح کہ اس کے ساتھ شتابی کرلے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 16 سے 19) ربط کلام : نبی (ﷺ) کی دعوت کا تیسرا بڑا جز لوگوں کو قیامت کے احتساب سے آگاہ کرنا ہے۔ جب آپ (ﷺ) لوگوں کے سامنے قیامت کا ذکر کرتے تو لوگ اس پر غور کرنے کی بجائے جلد بازی میں آکر کہتے کہ قیامت کب آئے گی۔ نبی (ﷺ) وحی کے نزول کے وقت اس لیے جلدی فرماتے تاکہ وحی کا کوئی لفظ بھول نہ جائے۔ اس پر آپ کو جلد بازی سے روکا گیا اور تسلی دی گئی کہ جس وجہ سے آپ جلدی کرتے ہیں اس کا فکر نہ کریں آپ کو قرآن مجید ضبط کروانا اور اس کا ابلاغ کروانا ہمارے ذمہ ہے لہٰذا آپ اطمینان کے ساتھ وحی سنا کریں۔ وحی کے ابتدائی ایام میں نبی (ﷺ) کے سامنے جبریل امین قرآن مجید کی تلاوت شروع کرتے تو آپ جلدی جلدی اسے پڑھنے کی کوشش فرماتے تاکہ کوئی لفظ محو نہ ہوجائے۔ اس پر آپ (ﷺ) کو یہ یقین دلایا گیا کہ آپ اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیا کریں۔ قرآن مجید کو آپ کے دل پر ثبت کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کروانا ہماری ذمہ داری ہے، جب ہم وحی مکمل کرچکیں تو پھر آپ اسے پڑھا کریں، ہماری ذمہ داری یہی نہیں کہ ہم آپ کے دل پر قرآن نازل کریں، ہم اسے یاد بھی کروائیں گے اور پھر وحی کے مطابق اسے من وعن بیان کروانا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ بیان کروانے کا محض یہ معنٰی نہیں کہ آپ وحی کے مطابق لوگوں کے سامنے صرف قرآن کی تلاوت کردیتے تھے، بیان سے مراد اس کی تفسیر بھی ہے جسے حدیث رسول کہا جاتا ہے۔ اس میں یہ بات خوبخود شامل ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تلاوت اور بیان اور اس کا جمع کرنا اپنے ذمہ لیا ہے اسی طرح حدیث کی حفاظت کروانا بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے جسے نبی (ﷺ) اور آپ کے متبعین کے ذریعے محفوظ فرما دیا گیا ہے۔ (کَان النَّبِیُّ () مِمَّا تَنَزَّلُ عَلَیْہِ الْآیَاتُ فَیَدْعُوْ بَعْضُ مَنْ کَانَ لَہٗ یَکْتُبُ لَہٗ وَیَقُوْلُ لَہٗ ضَعْ ہٰذِہِ الْاٰیَۃَ فِی السُّوْرَۃِ الَّتِیْ یُذْکَرُ فِیْہَا کَذَا وَکذَا) (رواہ ابوداؤد : کتاب الصلٰوۃ) ” جب نبی (ﷺ) پر آیات اترتیں تو کاتب وحی کو بلا کر فرماتے اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں جگہ لکھو۔“ (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یکَرِبَ الْکِنْدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ) (مسند احمد : باب حدیث المقدام بن معدیکرب، قال الالبانی ھٰدا حدیث صحیح) ” مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا خبردار بے شک مجھے کتاب اور اس جیسی اور چیز بھی عطا کی گئی ہے خبردار مجھے قرآن اور اس جیسی ایک اور چیز بھی عطا کی گئی ہے۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّہُ قَالَ یَا رَسُول اللہِ أَکْتُبُ مِنْکَ مَا أَسْمَعُ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ مَا قُلْتَ فِی الرِّضَا وَالْغَضَبِ ؟ قَالَ نَعَمْ فَإِنِّی لاَ أَقُولُ فِی ذَلِکَ کَلِمَۃً إِلاَّ الْحَقَّ) (رواہ ابوبکر فی مسند البزار : باب ہَذَا مَا حَدَّثَ بِہِ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) ھٰذا حدیث صحیح) ” عمر بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم (ﷺ) سے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! جو کچھ میں آپ سے سنتا ہوں لکھ لیا کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں ! پھر میں نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ کبھی خوشی میں بات کرتے ہیں اور کبھی ناراضگی کی حالت میں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا لکھ لیا کرو! کیونکہ میں حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا۔“ ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ﴾ (النحل :44) ” اور ہم نے آپ کی طرف نصیحت اتاری تاکہ آپ لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کریں جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غوروفکر کریں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو قرآن مجید ضبط کروانا اور اسے بیان کروانا اپنے ذمہ لیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کے ذریعے قرآن اور اس کی تفسیر کروانے کا ذمہ لیا۔ تفسیربالقرآن : قرآن مجید کی حفاظت : 1۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر :9)